ایک اور قسم کی معاشی راہداری

بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ سی پیک کے علاوہ پاکستان کے ایک دور افتادہ کونے میں ایک اور معاشی راہداری بھی بھرپور طریقے سے کام کر رہی ہے۔

ایرانی پیٹرول بازار سےبارعایت نرخوں پر دستیاب ہے (روئٹرز)

پاکستان سے تفتان جانے کے لیے جب میں کوئٹہ کے سریاب روڈ پر واقع اڈے پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دو ہزار روپے کرائے والی بس میں مجھ سے پانچ ہزار روپے مانگے جا رہے ہیں۔

پہلے تو مجھے شک ہوا کہ شاید میں ٹھیک سے سن نہیں پایا۔ دوبارہ استفسار پر معلوم ہوا کہ جس کے پاسپورٹ پر زیارتوں کا ویزا ہو ان سے پانچ ہزار کرایہ لیا جاتا ہے اور سیاحتی ویزا یا عمومی سواریوں سے دو ہزار روپے۔

میں نے ذرا بلند آواز میں پوچھا کہ ’صاحب آپ کو ویزا سے کیا غرض ہے؟ میں نے کوئٹہ سے اپنے ہی ملک کے اگر ایک علاقے میں جانا ہو اور میرے پاس پاسپورٹ ہو نہ ویزا، تب بھی آپ مجھ سے زیادہ کرایے کا مطالبہ کیسے کر سکتے ہیں؟‘

کمپنی کے کارندے نے فرمان سنایا کہ ’جناب یہاں یہی قانون ہے۔ سفر کرنا ہو تو کرایہ ادا کیجیے ورنہ دروازہ سامنے ہے۔‘ قانون کا لفظ سن کر گھنٹی سی بج گئی۔ اب وکالت کے لائسنس کو استعمال کرنے کا وقت آن پہنچا تھا۔

میں نے جیب سے بار کونسل کا کارڈ نکال کر لہرایا اور کہا، ’بھئی میں تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوتا ہوں، وہاں تو یہ قانون نہیں۔‘

معلوم نہیں یہ قانون کی دہشت تھی کہ وکالت کا کرشمہ کہ قریب کھڑے ایک باوردی اہلکار نے اگے بڑھتے ہوئے کہا، ’چلیں سر آپ ڈھائی ہزار دے دیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تب مجھ پر عقدہ کھلا کہ یہ اضافی کرایہ جاتا کہاں ہے۔

خیر ان معاملات سے گزرنے کے بعد سفر کا آغاز ہوا۔ اس وقت کوئٹہ سے تفتان (ایران سرحد) تک سڑک یک رویہ ہے البتہ بہتر حالت میں ہے۔ بس کے ذریعے 600 کلومیٹر کا سفر سات سے نو گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ سفر لمبا ہے، اس لیے میں نے وقت گزاری کے لیے بیگ سے کتاب نکالی اور ورق گرادنی میں چند گھڑیاں گزاری ہی تھیں کہ بس ایک چیک پوسٹ پر رک گئی۔ تمام سواریوں کے شناختی کارڈز چیک کیے گئے۔ کچھ سے پاسپورٹ دکھانے کا تقاضا ہوا۔

اس رسم سے نمٹنے کے بعد ابھی میں نے کتاب کی جانب دوبارہ متوجہ ہونا ہی چاہا تھا کہ نظر کھڑکی سے باہر کھڑی گاڑیوں پر پڑی۔ یہ ایرانی ساختہ پک اپ ٹرک تھے۔ ان پرانی گاڑیوں کو میں ایران میں بہت بار دیکھ چکا تھا اس لیے ان کو کوئٹہ کے مضافات میں پا کراچھا خاصا حیران ہو گیا۔

ان منی ٹرکوں کو ’ایران خودرو‘ کہا جاتا ہے۔ یہی ایرانی ساختہ پک اپ ٹرک اس سارے راستے پہ سینکڑوں کی تعداد میں دکھائی دیں گے۔ یہ سب تیل کے کنستروں سے لدے تھے۔ ان پہ کوئی رجسٹریشن نمبر پلیٹ بھی چسپاں نہ تھی اور نہ ہی ان میں سے کسی کو ایف سی، لیویز، فوج یا پولیس کی چوکی پر رکا دیکھا۔

یہ سارے پک اپ آئل کنٹینرز سے لدے تھے۔

آپ نے پچھلے پانچ سات برسوں میں پاکستان اور چین کے درمیان واقع سی پیک نامی معاشی راہداری کا ہر طرف چرچا سنا ہو گا اور اس سے منسلک امیدوں سے بھی واقف ہوں گے کہ جب یہ مکمل ہو گی تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔

لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اسی دوران ملک کے ایک دور افتادہ کونے میں ایک اور معاشی راہداری اب بھی بھرپور طریقے سے کام کر رہی ہے اور ملکی پیمانے پر نہ سہی، مقامی لوگوں کی تقدیریں بدلنے میں ابھی سے کردار ادا کر رہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس راہداری کا بڑا حصہ غیر قانونی تجارت پر مبنی ہے۔

خودرو ٹرکوں پر لدا ہوا ایرانی پیٹرول اور ڈیزل تو دور دور تک جاتا ہے، اس کے علاوہ بھی ایران سے سمگل شدہ مال ہر جگہ نظر آتا ہے۔

ایرانی حکام کے اندازے کے مطابق ایران کے بلوچستان اور سیستان صوبوں سے روزانہ پانچ لاکھ لیٹر پیٹرول سمگل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ جاننے کے لیے اکنامکس کی ڈگری کی ضرورت نہیں۔ بس یہ جان لیجیے کہ ایران میں پیٹرول کی قیمتوں میں حالیہ تین گنا اضافے کے باوجود وہاں پیٹرول 32 روپے لیٹر میں دستیاب ہے، جبکہ پاکستان میں ایک لیٹر پیٹرول کی قیمت 116 روپے ہے۔

گسینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی سمگلنگ سے ملکی معیشت کو سالانہ 60 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

لیکن صرف پیٹرول پر منحصر نہیں۔ اس علاقے میں تقریباً ہر چیز ایرانی ساختہ ملتی ہے۔ اس سستے ایرانی مال سے علاقے کی معیشت پر کیا فرق پڑا ہے، اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ میں نے ایرانی سرحد پر دو عدد لارج سائز ٹی کیک، ایک بسکٹ کا ڈبہ اور ایک کولڈ ڈرنک لی تو اس کی کل قیمت محض 80 روپے بنی۔

تفتان تک راستے میں نوشکی، دالبندین اور نوکنڈی وغیرہ جیسے مقامات آتے ہیں۔ بجلی بہت سی جگہوں پہ موجود ہے۔ انٹرنیٹ بھی کہیں کہیں دستیاب ہے۔ آبادی بہت کم ہے۔ سکیورٹی بہت زیادہ ہے اور جگہ جگہ ہے۔

 تفتان ضلع چاغی کا آخری بڑا قصبہ ہے۔ یہاں بھی دستیاب تمام اشیا ایرانی ساختہ ہیں۔ حتیٰ کہ بجلی بھی ایران نے دے رکھی ہے۔ سڑک کے برابر میں ایک ریل ٹریک بھی موجود ہے جس کو نہ جانے کیوں مسافر ٹرین کے لیے کوئٹہ تفتان روٹ پہ نہیں چلایا جاتا۔

اسی طرح سرحد پہ موجود ایف آئی عملے کو بھی شدید نگرانی کی ضرورت ہے۔ یہاں پہ موجود چھ کاؤنٹروں میں سے صرف ایک یا دو پہ سٹاف موجود ہوتا ہے۔ لوگوں سے رشوت کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ پاسپورٹ کو مشکوک کہہ کر ایف آئی اے کا عملہ ان افراد کو الگ کمرے میں لے جاتا ہے جہاں پہ کس شے کا تقاضا کیا جاتا ہے تو بھئی قائد اعظم زندہ باد۔

یہ علاقہ فی الوقت سکیورٹی کے لحاظ سے بالکل محفوظ ہے۔ تفتان میں اگرچہ پرائیویٹ اور سرکاری سطح پہ کچھ ترقیاتی کام ہوا ہے لیکن یہاں سے سالانہ لاکھوں پاکستانی سفر کرنے کی غرض سے آتے ہیں اور کچھ نہ کچھ تجارت قانونی بھی ہوتی ہے سو تھوڑا سا مربوط کام مثلاً نئے ہوٹلوں کا قیام، مین سٹریم ٹریول انڈسٹری کو یہاں لانا، ٹرین سروس کا احیا، قانونی اکنامک کاریڈور، انفرا سٹرکچر کی تعمیر و توسیع وغیرہ سے شہریوں کو مزید سہولت کے ساتھ ساتھ معیشت کا بھلا بھی ہو سکتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ