تولہ ماشہ طاقت

ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ عمران خان نے خود اپنی بیچارگی کا رونا ابھی تک نہیں رویا۔ ہاں اب یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ملک چلانے اور کرکٹ کھیلنے میں فرق ہے۔

وزیر اعظم عمران خان لیہہ میں احساس پروگرام کے تحت مال مویشی تقسیم کرتے ہوئے (پی آئی ڈی)

ایک نجی محفل میں پچھلے ہفتے پاکستان تحریک انصاف کے ایک وزیر ہوشیار لیکن بےمہار ترنگ میں آ گئے۔ جب حاضرین مجلس نے گپ شپ کے چھاتے تلے حکومت کی درگت بنانی شروع کی تو وہ پھٹ پڑے۔

فرمانے لگے کہ عمران خان کیا کرے جب اس کو کٹی پھٹی طاقت دی گئی ہے۔ جس کو استعمال کرنے سے پہلے اس کو بیسیوں بار آدھ درجن افراد سے ان کی مرضی پوچھنا پڑتی ہے۔ یہ کہا کہ فیصلہ سازی کا نظام اتنا بٹ چکا ہے کہ وزیر اعظم کے پلے تولہ ماشہ طاقت ہی ہے۔ سیر سوا سیر صاحب لوگوں کے پاس ہے۔

نہ معیشت کی باگیں وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہیں، نہ مختلف وزارتوں پر فائز چیدہ افراد ان کے ہیں۔ جب معیشت، داخلہ، خارجہ، تجارت اور دفاع حکومتی سربراہ کے ہاتھ میں نہ ہو تو وہ کیا خاک کارکردگی دکھائے گا۔ وزیر موصوف نے بتایا کہ اب معاشی ٹیم کو پنڈی جا کر باقاعدہ پریزنٹیشن کرنی پڑتی ہیں جن میں سے بعض کے بارے میں معلومات وزیر اعظم تک بعد از واقعہ پہنچائی جاتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر کا چیئرمین ہو یا محصولات کو بہتر کرنے کے لیے ہارون اختر کا چناؤ، آئی ایم ایف سے چیلے لا کر سٹیٹ بینک میں بیٹھانے ہوں یا بڑے ترقیاتی منصوبوں پر خرچہ کرنا ہو سب کچھ ایک غیررسمی لیکن ناگزیر این او سی حاصل کیے بغیر نہیں ہوتا۔ اس دوران کسی نے اس وزیر کے سامنے عثمان بزدار کا حوالہ دے دیا اور کہا کہ آپ اپنی تعیناتی کا معیار بھی دیکھ لیں، پنجاب کو کون سے ارسطو کے ذریعے چلا رہے ہیں؟

اس پر وہ چیف سیکرٹری کی طاقت کا رونا رونے لگے اور کہا کہ بزدار تو ایسا میزائل ہے جس کو چلنے ہی نہیں دیا گیا لہذا اس کا ہدف پر نہ پہنچنا ایک بےمعنی تنقید ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح پنجاب میں چیف سیکرٹری کے تابع چلنے والی بیوروکریسی ہر معاملے پر سیاست دانوں کو جھنڈی کرا دیتی ہے۔

کہنے لگے ’اس حالت میں وزیر اعظم عمران خان ہی کا حوصلہ ہے کہ وہ تدبر اور برداشت کے ساتھ بار بار یہ کہتے ہیں کہ ریاست اور حکومت کے ادارے اور محکمے ایک ہی پیج پر ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عین ممکن ہے کہ اس وزیر کی کچھ ایسی دل آزاری ہوئی ہو کہ وہ اپنی حکومت کو بیچارہ اور دوسرے محرکات کو ملک میں پھیلی ہوئی افراتفری کا ذمہ دار ٹہرانے پر مجبور ہو۔ مگر ان کی باتوں سے وزیر اعظم عمران خان کا جو تصور جنم لیتا ہے وہ چند ایک ٹی وی کے پروگرامز میں بھی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔

’عمران بیچارہ ہے تو پیارا، مگر حالات نے مارا۔‘ اب ایک مسلسل گونج اختیار کر رہا ہے۔ چند ایک دانشور عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے وزیر اعظم میں عقل و دانش، تدبر اور تدبیر کی کوئی کمی نہیں لیکن ان کو ٹیم ایسی دے دی گئی ہے جس کے چناؤ میں ان کی اپنی مرضی کم اور دوسروں کی منشا زیادہ شامل ہے۔ اگر عمران خان دوسروں کی طرف سے ہونے والی دخل اندازی سے جان چھڑا پائے تو وہ ملک کو ہمارے خوابوں سے بھی زیادہ حسین بنا سکتے ہیں۔

ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ عمران خان نے خود اپنی بیچارگی کا رونا ابھی تک نہیں رویا۔ ہاں اب یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ملک چلانے اور کرکٹ کھیلنے میں فرق ہے۔ یعنی اب وہ مان رہے ہیں کہ کرکٹ جیسے اتفاقات پر مبنی کھیل کی ایک ٹرافی جس کے حصول میں کپتان سے زیادہ باقی 10 کھلاڑیوں کا حصہ ہوتا ہے جیت لینا، ملک کو سنبھالنے کی ذمہ داری سے بالکل مختلف ہے۔

اگرچہ جب ماضی میں ان کو اس حقیقت کے بارے میں باور کروایا جاتا تھا تو سیخ پا ہو کر کرکٹ کے میدان کو ایک کرشماتی سیاسی ٹریننگ اکیڈمی سے تشبیہ دینے لگتے تھے۔ وہ پویلین سے وکٹ تک کے سفر کو بیان کرتے ہوئے ایسے تربیتی فارمولے ترتیب دینے لگتے کہ جن کی کتابوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کی نظر میں سٹیڈیم میں بولنگ کرنا ریاستی امور کو چلانے کی بہترین تربیت گاہ اور پویلین میں کیے گئے فیصلے جنگ اور امن کے حالات بنانے کی صلاحیت سیکھنے کا ذریعہ ہو سکتے ہیں۔ مگر اب حالات نے ان کو کرکٹ اور مملکت کا فرق سمجھا دیا ہے۔

وہ بہرحال ابھی بھی ظاہراً یہی رویہ اپنائے ہوئے ہیں کہ جیسے وہ ملک میں ایک حقیقی وزیر اعظم کے طور پر کام کرتے ہیں، لیکن ان کے رفقا اور میڈیا میں چند ایک مبلغین کی طرف سے ان کو ایک مجبور اور بےقصور وزیر اعظم کے طور پر پیش کرنا ایک دلچسپ بیانیہ ضرور ہے۔ اسی بیانیے کا ایک اور پہلو اس تاویل کی صورت میں دیا جاتا ہے کہ عمران خان صدارتی نظام میں جوہر نایاب ثابت ہو سکتے ہیں کیوں کہ پارلیمانی نظام انتظامی امور میں ان کی لگامیں کھینچ دیتا ہے۔

تو کیا واقعتاً عمران خان ایک مجبور مجاہد ہیں جو اگر صدارتی گھوڑے پر بیٹھا دیے جائیں تو ملک کو درپیش تمام مسائل کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیں گے؟ خواہشات نیک ہوں یا بیوقوفانہ ان کی کوئی حد نہیں ہے لہذا آپ کچھ بھی سوچ سکتے ہیں، لیکن 18 ماہ کی کارکردگی اور اس سے پہلے 2018 کے انتخابات کے عمل کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کی واحد مجبوری وہ خود ہیں، صلاحیت سے عاری اور سیکھنے سے متنفر۔

وزیر اعظم عمران خان کے مشیر اگر خود کو تسلی دینے کے لیے نامکمل طاقت کا واویلا کرنا چاہیں تو ان کی اپنی مرضی لیکن حقیقت یہ ہے کہ جتنی سہولت، مدد، شفقت، انسیت اور ان جیسے تمام مثبت جذبات اور اہتمام عمران خان کے لیے ملک کی سٹیبلشمنٹ نے کیے ویسا کبھی کہیں دیکھے نہیں گئے۔ انتخابات جتوانے کے لیے ایک سیاسی قصاب گھر بنایا گیا۔

ہر کسی کو الٹا لٹکا کر تحریک انصاف کے لیے گوشت کا نذرانہ مانگا گیا اورخصوصی پیوندکاری کے ذریعے اتحادیوں کو کھینچ تان کر عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کے لیے ایک گھاٹ پر باندھ دیا گیا۔ عدالتی مقدمے ہوں یا ذاتی مسائل، فارن فنڈنگ کیس سے لے کر چینی اور آٹا کے بحرانوں تک عمران خان کی حکومت کو غیرمعمولی استثنی حاصل رہا ہے۔

نہ کوئی سکینڈل آڑے آنے دیا گیا اور نہ بدترین بحران کو، جس نے لوگوں کے رزق چھین لیے اور ان کی نوکریاں برباد کر دیں، مسئلہ بننے دیا گیا۔ خارجہ و دفاعی محاذ پر تمام وزن سٹیبلشمنٹ نے خود اٹھایا ہے۔

جب حزب مخالف بنی گالہ کو ہلانے لگی تو اس کے ہاتھ پکڑ لیے گئے۔ مخالفین یا ملک سے باہر اور یا جیلوں میں بھیج دیے گئے۔ انصاف کے نظام پر خاموشی سے نظریہ ضرورت کی بریک لگا دی گئی۔ قانون سازی سے لے کر اہم پالیسیوں کی بریفنگ تک سب کچھ مہیا کیا گیا۔ حتیٰ کہ تمام اہم بین الاقوامی دورے، ان سے متعلق تیاری اور غیرملکی مہمانوں سے بات چیت کے اہم نکات تک فراہم کیے جاتے ہیں۔

ظاہر ہے جغرافیہ، بنیادی اسلامیات، آداب محفل اور سیاسی تاریخ اس تربیت سازی کا حصہ نہیں ہے، شاید اسی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان ان موضوعات پر جب بھی بات کرتے ہیں تو حقائق دہل جاتے ہیں۔ اگر وزیر اعظم عمران خان اس تمام موافق ماحول سے فائدہ نہیں اٹھا سکے تو وہ کسی بھی نظام میں موثر ثابت نہیں ہوں گے۔ ان کو انگلی سے پکڑ کر طاقت کی غلام گردشوں میں سے گھماتے ہوئے تخت طاؤس پر بیٹھا دیا گیا ہے۔

وہ چاہتے تو اکبر اور شاہ جہان بن سکتے تھے مگر ان کا تمام تر جھکاؤ اورنگزیب کے بعد آنے والے ان مغل بادشاہوں کی طرف زیادہ لگتا ہے جنہوں نے طوائف الملوکی کو جنم دیا اور پھر آخر میں اس کی نذز ہو گئے۔ کسی بھی حکومت کو راہ راست پر آنے کے لیے تمام اہم اداروں اور محکموں کی مدد اور عوام کی طرف سے بلند ہونے والی صدا کی ضرورت ہوتی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ عمران خان کی اس سے زیادہ مدد نہیں کر سکتے۔ اگر عمران خان پھر بھی نہ سدھریں تو قصور کس کا ہے؟

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ