ایک پاکستانی جو ترکی کے لیے سال کا بہترین سائنس دان ہے

گوجرانوالہ کے نواحی گاؤں پنڈی بھنگو میں رہتے ہوئے محمد شہباز نے جس طرح پی ایچ ڈی تک پرائیویٹ تعلیم حاصل کی، ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔

پاکستان میں ایسی بہت سی شخصیات ہیں جنہوں نے ترقی یافتہ ممالک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا، لیکن محمد شہباز نے مالی مشکلات کے باوجود گوجرانوالہ کے نواحی گاؤں پنڈی بھنگو میں رہتے ہوئے جس طرح پی ایچ ڈی تک پرائیویٹ تعلیم حاصل کی، ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔

محمد شہباز نے انڈپینڈنٹ اردو کو انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے معاشیات (اکنامکس) کے مضمون میں ڈگری مکمل کرنے کے لیے ٹیوشنز پڑھا کر تعلیمی اخراجات برداشت کیے اور اس کے بعد وہ فرانس چلے گئے جہاں انہیں ایک کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کی نوکری ملی۔

انہوں نے کہا کہ اس کالج میں ان کی ریسرچ اور خدمات کو دیکھتے ہوئے الگ شعبہ قائم کرکے انہیں اس کا سربراہ بنادیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماحولیاتی اور انرجی اکنامکس کے شعبے میں ان کی ریسرچ کو عالمی سطح پر پزیرائی ملی اور انہیں ترکی میں چند ماہ پہلے ہونے والے دنیا بھر کی ایسی ریسرچز میں سے ’ریسرچر آف دی ایئر‘ قرار دے کر ایوارڈ سے نوازا گیا۔

شہباز نے بتایا کہ ان کا خواب تھا کہ وہ کیمبرج یونیورسٹی میں لیکچر دیں، لیکن اب ان کی تعلیمی خدمات اور صلاحیتوں کے پیش نظر انہیں شعبہ اکنامکس کی ریسرچ ٹیم میں شامل کر لیا گیا ہے اور اس ٹیم میں شامل وہ پہلے پاکستانی ہیں۔

محمد شہباز نے کہا کہ ان دنوں وہ چین میں معاشیات کے شعبے میں پہلے تین بہترین پروفیسرز میں شمار ہوتے ہیں جبکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی انہیں بہترین ریسرچر تسلیم کیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وہ ان دنوں ترکی میں توانائی کے شعبے میں بھی بطور اکنامسٹ خدمات فراہم کرنے کے منصوبہ پر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ پاکستان کی معاشی صورت حال اس وجہ سے مستحکم نہیں ہو رہی کہ ماہرینِ معیشت دوسرے ممالک سے یہاں لائے جاتے ہیں۔ وہ اس ملک کی صورت حال اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھے بغیر پالیسیاں بناتے ہیں جس سے عام آدمی کی زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

شہباز کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں بینک پبلک سیکٹر کو مضبوط کرنے کی بجائے حکومتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں جس کے نتائج صرف بینکوں کو منافع کی صورت میں ملتے ہیں جبکہ عوامی سطح پر پرائیویٹ سیکٹر سکڑتا جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ صنعت کار بھی بینکوں سے قرض لینے سے اجتناب کرتے ہیں کیونکہ ان کی ترجیح حکومتی منصوبوں میں سرمایہ کاری ہے جبکہ پرائیویٹ سیکٹر کے لیے شرح سود زیادہ ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس