افغانستان میں امریکہ کے حوالے سے آئی سی سی تحقیقات بلاجواز: پومپیو

بین الاقوامی فوجداری عدالت کے ججوں نے جمعرات کو فیصلہ دیا کہ امریکی افواج کے ذریعے ہونے والے ممکنہ جنگی جرائم کی تلاش سمیت افغانستان میں ہونے والی زیادتیوں کی تحقیقات کو آگے بڑھانا چاہیے۔

وزیر خارجہ مائیک پومپیو   نے کہا کہ امریکہ اپنی خودمختاری اور اپنے عوام کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔ (فائل تصویر: اے ایف پی)

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے افغانستان میں امریکی اہلکاروں کے حوالے سے بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی تحقیقات کو ناجائز اور بلاجواز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اپنی خودمختاری اور اپنے عوام کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔

آئی سی سی کے اپیل چیمبر نے آج  اپنے فیصلے میں افغانستان میں جنگی جرائم کے حوالے سے تحقیقات کی اجازت دیتے ہوئے قرار دیا کہ امریکی افواج کے ذریعے ہونے والے ممکنہ مظالم کی تلاش سمیت افغانستان میں ہونے والی زیادتیوں کی تحقیقات کو آگے بڑھانا چاہیے۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت کے جج پیوٹر ہوفمانسکی نے کہا: ’استغاثہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ یکم مئی 2003 سے افغانستان کی سرزمین پر ہونے والے مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات شروع کرے۔‘

آئی سی سی کے فیصلے کے ردعمل میں سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا: ’آج بین الاقوامی فوجداری عدالت کے اپیل چیمبر نے افغانستان سے متعلق طالبان، امریکی اور  افغان اہلکاروں کی مبینہ سرگرمیوں کی تحقیقات کی اجازت دی ہے۔ یہ ایک ناقابل احتساب سیاسی ادارے کی طرف سے ایک دم بخود کردینے والی کارروائی ہے۔‘

مزید کہا گیا: ’اس فیصلے کی غیر ذمہ داری اس بات سے ثابت ہے کہ یہ امریکہ کی جانب سے افغانستان کے بارے میں تاریخی امن معاہدے پر دستخط کیے جانے کے کچھ دن بعد سامنے آیا ہے، جو امن کا بہترین موقع ہے۔ درحقیقت خود افغان حکومت نے آئی سی سی سے درخواست کی کہ وہ اس اپیل کو نہ سنے لیکن آئی سی سی کے سیاست دانوں کے کچھ اور ہی مقاصد تھے۔‘

سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ریاست ہائے متحدہ امریکہ آئی سی سی کا فریق نہیں ہے اور ہم اپنے شہریوں کو اس نام نہاد عدالت کے فیصلے سے بچانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں گے۔‘

مزید کہا گیا: ’یہ اس بات کی بھی نشاندہی ہے جب کثیرالجہتی اداروں میں ذمہ دار قیادت کا فقدان ہوتا ہے اور  وہ سیاسی پنڈتوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔‘

واضح رہے کہ اس سے قبل 20 نومبر 2017 کو پراسیکیوٹرز نے یکم مئی 2003 سے افغانستان میں امریکی اور اتحادی فورسز کی جانب سے مبینہ طور پر انسانیت کے خلاف اور جنگی جرائم کی تحقیقات شروع کرنے کے لیے پری ٹرائل ججوں سے اجازت لینے کی درخواست کی تھی۔

تاہم مکمل جانچ پڑتال کے بعد 12 اپریل 2019  کو آئی سی سی کے پری ٹرائل چیمبر ٹو نے افغانستان کی سرزمین پر جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے کارروائی کرنے کے لیے پراسیکیوٹرز کی متفقہ درخواست کو مسترد کردیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس وقت ججوں نے فیصلہ دیا تھا کہ اس مرحلے پر افغانستان کی صورت حال کی تحقیقات انصاف کے مفادات کو پورا نہیں کرے گی۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات کی اجازت دینے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب حال ہی میں 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے مابین ایک امن معاہدے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ امریکہ اپنی فوجیں افغانستان سے نکال لے گا جبکہ افغان فریقین کے درمیان 10 مارچ سے بین الافغان مذاکرات بھی ہونے جارہے ہیں ۔

امن معاہدے کے مطابق طالبان نے اپنے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کے بدلے ایک ہزار افغان فوجی رہا کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے اور قیدیوں کا تبادلہ ان کی اولین شرائط میں شامل تھا، تاہم افغان صدر اشرف غنی نے بین الافغان مذاکرات سے قبل ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے، جس سے قیاس کیا جارہا ہے کہ یہ مذاکرات خطرے میں پڑسکتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا