عورت آزادی مارچ کی تصویری کہانی

اسلام آباد مارچ میں خواتین کی جسمانی، ذہنی اور جذباتی مشقت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ۔

  سماجی کارکن طاہرہ عبداللہ عورت آزادی   مارچ سے خطاب کر رہی ہیں۔  فوٹو: سوزینا مسیح/ انڈپینڈنٹ اردو

ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان بھر میں حکومتی اور نجی سطح پر پروگرام منعقد کیے گیے۔

سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو ملک بھر میں سب سے نمایاں اور کامیاب پروگرام عورت مارچ کے نام سے ہونے والی ریلیاں تھیں جو پچھلے سال کی کامیابی کے بعد اس مرتبہ سات شہروں کراچی، اسلام آباد، لاہور، پشاور، فیصل آباد، کوئٹہ اور حیدرآباد میں منعقد ہوئیں۔

اسلام آباد مارچ کے منتظمین میں شامل طوبا سید کے مطابق شرکا کا مطالبہ تھا کہ خواتین کی جسمانی، ذہنی اور جذباتی مشقت کو تسلیم کیا جائے اور ان تمام زخموں کا مداوا کیا جائے جو انہیں سرمایہ داری نظام، پدر شاہی، فوج گردی، مذہبی بنیاد پرستی اور سامراجی نظام نے عطا کئے ہیں۔

جلوس میں طلبا، وکلا، سیاسی کارکنان، اساتذہ، فلم ساز، موسیقار، گھریلو ملازمین اور صحتِ عامہ کے کارکنان کی تنظیمیں شامل تھیں۔

مارچ کے شرکا نے اپنی تقریروں میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کا مطالبہ دہرایا اور کہا کہ مناسب قانون سازی کےذریعے خواتین اور خواجہ سراؤں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے، ان کے لئے غیر سرکاری شعبے میں ملازمتوں کو بشمول کم از کم تنخواہ کے قانونی تحفظ دیا جائے، اساتذہ اور شعبہ صحت کے ملازمین کی نوکریاں پکی کی جائیں، ان دونوں شعبوں میں نجکاری کے رحجان کا خاتمہ اور سرکاری فنڈنگ میں اضافہ کیا جائے تاکہ خواتین کو اس کا فائدہ پہنچ سکے۔

  ریلی کی کچھ منتخب تصاویر یہ ہیں۔

 

 

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین