عورت کے ساتھ جرائم کا تعلق سیاست اور سیاست دانوں سے ہے

بھارت میں اب خواتین کی بیشتر انجمنیں ملک میں عورت کو تحفظ فراہم کرنے اور ان سیاستدانوں پر انتخابات لڑنے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتی آرہی ہیں جن کے خلاف عدالتوں میں جنسی زیادتی کے کیس درج ہیں

سرینگر میں ایک لڑکی سکولوں کے تین ماہ کی چھٹیوں کے بعد کھلنے کے بعد پہلی اسمبلی میں۔ فوٹو۔اے پی

خواتین کے عالمی دن کے سلسلے میں بھارت کی بیشتر تنظیموں نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی نصف آبادی یعنی عورتیں موجودہ حالات میں خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگی ہیں۔  خاص طور پر بڑے شہروں میں یہ احساس زیادہ ہے  جہاں جنسی جرائم کے واقعات میں حالیہ برسوں میں خاصا اضافہ تشویش ناک ہے۔ 

بھارتی خواتین کو اگرچہ سیاسی، معاشی یا معاشرتی اداروں میں خاصی نمائندگی حاصل ہوئی ہے اور حصول تعلیم میں مردوں سے سبقت لینے میں کافی کوشاں نظر آتی ہیں مگر صنف نازک کے خلاف جنسی زیادتی کی شکایتوں میں بے تحاشا اضافہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اب پہلے کی طرح آزادی سے گھومنے پھرنے یا اکیلے باہر جانے سے کتراتی ہیں۔

 لڑکیاں اس وقت سے زیادہ خوفزدہ ہوئی ہیں جب سے 2012 میں تیئس برس کی جیوتی نام کی لڑکی کو دلی کی مسافر بس میں رات کے دوران کئی افراد نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا تھا۔ اس زیادتی کے بعد اس کی موت واقع ہوئی تھی. اس واقعے پر مختلف ریاستوں میں کافی ہنگامہ ہوا اور ہزاروں لوگ خصوصا عورتیں اور لڑکیاں سڑکوں پر نکل کر کئی روز تک احتجاج کرتی رہیں۔ مختلف تنظیموں نےحکومت پر ریپ کے خلاف سخت قوانین بنانے کے لیے زور ڈالا اور بھارتی پارلیمان میں کئی خواتین اراکین نے اس وقت کی حکومت کوملک میں عورتوں کے خلاف بڑھنے والے جرائم کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ حکومت نے گوکہ ریپ کے مرتکب افراد کے خلاف سخت قانون لاگو کیا ہے البتہ قوانین کے باوجود ان واقعات میں آئے روز اضافہ بتایا جا رہا ہے جو خواتین کے لے باعث تشویش موضوع بنا ہوا ہے۔                                                                                                                                 

چونکہ بھارت میں ریپ وکٹم کا نام نہیں لیا جاتا لہذا اس واقعے کو نربھیا کا نام دیا گیا۔ اس کی گونج عالمی ایوانوں میں بھی سنا دی گئی اور حکومت بھارت پر عورتوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کی مانگ زور پکڑتی گئی یہاں تک کہ بعض تنظیموں نے بھارت کے دارالحکومت دلی کو "ریپ کیپٹل" کا نام بھی دیا۔                                       

 ملک میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے کئی بار حکمران جماعت بی جے پی کے کئی اراکین پر بعض عورتوں پر جنسی زیادتی کرنے کا الزام عائد کیا۔ اس کی قدرے تائید اتر پردیش کے آناو علاقے میں سترہ برس کی ایک خاتون نے رکن اسمبلی پر نہ صرف جنسی فعل کرنے کے الزام سے کی بلکہ اس کے والد کو جیل میں ہلاک کرکے پولیس کے کردار پر بھی نشانہ لگایا جو بقول لڑکی ایسے واقعات پر پردہ ڈال کر حکمرانوں کا ساتھ دیتی ہے۔ اناو کیس میں رکن اسمبلی کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا جبکہ اس معاملے کا فیصلہ ابھی آنا باقی ہے۔                      

ایک اور معاملے میں بی جے پی کے بعض اراکین پر اس وقت شدید تنقید کی گئی جب جموں کشمیر کے کٹھوعہ ضلع میں آٹھ برس کی بچی آصفہ کو مندر میں لے جاکر ریپ کے بعد ہلاک کیا گیا تھا۔ بی جے پی کے دو ریاستی وزرا نے ریپ میں ملوث افراد کے حق میں جلوس نکالا اور مذہبی رنگ دے کر ہندوں کے خلاف اسے سازش قرار دینے کا الزام عائد کیا تھا۔ سپریم کورٹ کو اس کیس میں مداخلت کرکے اس کی سماعت ریاست سے باہر پنجاب کے علاقے پٹھان کوٹ میں کروانے کا حکم جاری کرنا پڑا۔                                                         

آصفہ کے گھر والوں نے مقامی ہندوؤں پر انہیں ڈرانے دھمکانے کا الزام لگاتے ہوے کہا کہ بچی کے ساتھ گھناؤنے جرم سے وہ انہیں اس علاقے سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہاں مسلمانوں کا نام و نشان نہ رہے۔ کیس کی سماعت عدالت میں جاری ہے۔

بھارت میں سرکاری رپورٹ کے مطابق جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات ریاست راجھستان میں ہو رہے ہیں مگرگزشتہ دو برسوں میں ہزاروں ایسے واقعات دارالحکومت دلی میں ریکارڈ کے گئے ہیں۔ اس پس منظر میں مجرموں کو پھانسی دینے کی مانگ کرتے ہوے دلی کے خواتین کمیشن کی سربراہ نے تقریبا ایک ہفتے تک بھوک ہڑتال کی تھی۔ حکومت نے ابھی تک ایسی سزا دینے کا قانون نہیں بنایا مگر نربھیا اور چند اور کیسوں میں ملوث مجرموں کو عدالت نے سزائے موت دینے کا حکم سنایا۔

کشمیر میں سن نوے کی دہائی میں ہونے والے بدنام ترین کننپوشپورہ واقعے کی سماعت اب تک سپریم کورٹ میں نہیں ہوئی ہے جس میں بھارتی فوج پر الزام ہے کہ اس نے نے دو علاقوں کا محاصرہ کرکے تقریبا سو عورتوں کو رات کے اندھیرے میں ریپ کیا تھا۔ اس کی پولیس نے باظابطہ طور پر ایف آئی آر بھی درج کی تھی۔ جنسی تشدد کا نشانہ بیشتر عورتیں ہر سال احتجاج کرکے اس دن کی یاد دلاتی ہیں اور مجرموں کو سزا دلانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔

بھارت میں عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں ریپ چوتھے نمبر پر ہے۔ دوہزار تیرہ کے قومی کرائم ریکارڈ ادارے کے مطابق دو ہزار بارہ میں تقریب پچییس ہزار ریپ وارداتیں ہوئیں ہیں جبکہ ایسے ہزاروں کیسز ہیں جن کو رپورٹ ہی نہیں کیا جاتا ہے کیو نکہ معاشرے کی سوچ ریپ وکٹم کو ہی ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور کرتی ہے۔

 بھارت میں ہر سات منٹ میں ایک ریپ ہوتا ہے جبکہ ہر سولہ منٹ میں نچلی ذات کی ہندو عورت یا دلت کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دلتوں پر اونچے ذات کے مرد جنسی تشدد کرتے ہیں اور گذشتہ چند برسوں میں سینکڑوں مسلم خواتین کو غیر مسلم مردوں کا نشانہ بننا پڑا ہے۔ ریپ ہونے والی چھ ماہ کی بچی بھی ہے اور اسی برس کی بوڑھی عورت بھی۔ دور دراز دیہات کی ان پڑھ خواتیں بھی اور میٹرو میں رہنے والی ماڈرن لڑکی بھی۔                  

عالمی دن براے خواتین کے سلسلے میں اگرچہ دنیا بھر میں عورت کو برابر کا رتبہ دینے پر زور دیا جا رہا ہے مگر بھارت میں حالیہ برسوں سے خواتین کی بیشتر انجمنیں ملک میں عورت کو تحفظ فراہم کرنے اور ان سیاستدانوں پر انتخابات لڑنے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتی آرہی ہیں جن کے خلاف عدالتوں میں جنسی زیادتی کے کیس درج ہیں یا جن کے جنسی جرائم کے مرتکب افراد کے ساتھ مراسم پائے جاتے ہیں۔

ملک کے طول و عرض میں یہ سوچ گہری ہے کہ عورت کے ساتھ جرائم کا تعلق سیاست اور سیاست دانوں سے ہے جو عورت کو نشانہ بناکر اپنی سیاسی بازی مارتے ہیں اور موجودہ سیاسی پس منظر میں اس کی کئی مثالیں دی جاتی ہیں۔    

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ