جوہری ہتھیار یا وینٹی لیٹرز؟

جس دنیا میں تیرہ ہزار آٹھ سو نوے جوہری ہتھیار یا بربادی کے ہتھیار موجود ہیں اس دنیا میں ایک لاکھ افراد کے لیے محال ہی ایک وینٹی لیٹر موجود ہے۔

دنیا کو ختم کرنے کے لیے جوہری ہتھیار موجود ہیں جبکہ شہریوں کو زندہ رکھنے کے لیے وینٹی لیٹرز موجود نہیں ہیں (اے ایف پی)

افسوس اس بات کا نہیں کہ ہمارے غریب ملکوں میں صحت عامہ کی بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ امیر ترین ممالک میں جہاں طبی شعبے کو جدید ترین بتایا جاتا ہے ایک وائرس سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے۔

کورونا وائرس نے سات ارب آبادی کو جتنا خوف زدہ کر دیا ہے اس کی نظیر سپینش فلو کے دوران بھی نہیں ملتی ہے۔ موجودہ دور کی تیز رفتاری، سائنسی ایجادات اور طبی سیکٹر میں بیماریوں کی تشخیص و علاج  کا وہ سارا بھرم چکنا چور ہوگیا جب عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کورونا وائرس کی وبائی شکل اختیار کرنے کے اعلان کے بعد امیر ممالک ہسپتال بیڈ اور وینٹی لیٹرز کا حساب کرنے لگ گئے اور پتہ چلا کہ ایک لاکھ افراد کے لیے ایک وینٹی لیٹر کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔

کورونا کا قہر ایسے نازل ہوا ہے کہ دنیا کو نہ صرف سات ارب آبادی کوگھروں کےاندر قید کرنا پڑ رہا ہے بلکہ کھربوں ڈالرز کی معیشت کا نقصان خطرناک اقتصادی مندی کی جانب اشارہ دے رہا ہے۔

یہ اندازہ بھی کتنا غلط ثابت ہوا کہ مغربی حکومتوں کے پاس طبی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے نہ صرف بنیادی ڈھانچہ موجود ہے بلکہ طبی ماہرین کا عملہ بھی کیوں کہ صحت عامہ ہمیشہ ان کی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔ گوکہ ان کے قومی بجٹ کا بڑا حصہ طبی سیکٹر کے لیے مختص رکھا جاتا ہے اور صحت کی بنیادی سہولیات ہر ایک کو میسر ہیں البتہ کورونا جیسی آفت سے لڑنے کی طاقت بلکل نہیں۔

اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب حکومت برطانیہ نے ہنگامی طور پر ایکسیل سینٹر کی عمارت کو چار ہزار بیڈ پر مشتمل ہسپتال میں منتقل کیا اور 30 ہزار سے زائد ریٹائرڈ ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی ماہرین کو واپس ہسپتالوں میں طلب کیا جہاں موجود طبی ماہرین مریضوں کی درست دیکھ بھال نہیں کر پا رہے تھے۔ علاوہ ازیں ڈھائی لاکھ سے زائد رضاکاروں کی مدد سے مریضوں کی مدد کرنے کی اپیل کی گئی ہے حالانکہ برطانیہ کا محکمہ صحت دنیا کا بہترین نظام تصور کیا جاتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ چار لاکھ سے زائد رضاکاروں نے اس نازک گھڑی میں صحت عامہ کے محکمے کی مدد کرنے کی پیشکش کی۔

غریب ممالک جیسے کہ پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال یا بھارت کی صورت حال بدترین ہے جہاں اندرونی انتشار، بددیانت حاکم اور باہمی تنازعات کے باعث طبی سیکٹر نہ ہونے کے برابر ہے۔ بقول ایک تھنک ٹینک ’ان ملکوں میں چونکہ ہر کام اللہ کے سپرد کیا جاتا ہے لہذا ان کا نظام بھی یقیناً اللہ ہی چلاتا ہے۔ بددیانت حاکم اور جنگ وجدل کے جذبات ابھارنے والے لیڈر صحت اور تعلیم پر نہیں بلکہ مجسمے یا مذہبی عمارات بنانے پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ کرونا سے لڑنے کا معاملہ یا تو اللہ کے سپرد کیا جاتا ہےیا عوام کو برتن بجا کر گمراہ کیا جاتا ہے۔‘

جس دنیا میں تیرہ ہزار آٹھ سو نوے جوہری ہتھیار یا بربادی کے ہتھیار موجود ہیں اس دنیا میں ایک لاکھ افراد کے لیے محال ہی ایک وینٹی لیٹر موجود ہے۔ اگر خدانخواستہ کورونا کا قہر اسی طرح اموات کا سبب رہا جس میں مریض کو سانس لینے میں دشواری پیش آتی ہے اور وینٹی لیٹر کی مدد سے اس کو بچایا جاسکتا ہے جس کی قیمت تقریباً سات ہزار ڈالرز ہے جو امریکہ جیسی سپر طاقت کی 33 کروڑ آبادی کے لیے صرف ایک لاکھ ہیں۔ اسی ملک نے جوہری بم کی تحقیق پر دو ارب سے زائد ڈالرز خرچ کئے ہیں اور اس کے پاس سب سے زیادہ   جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ تو اندازہ لگائیں کہ کتنے لوگ وینٹی لیٹر نہ ملنے کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

ایک بم چار سو کلومیٹر کے علاقے کو پانچ منٹ میں نیست نابود کرسکتا ہے۔ دنیا کو ختم کرنے کے لیے جوہری ہتھیار موجود ہیں جبکہ شہریوں کو زندہ رکھنے کے لیے وینٹی لیٹرز موجود نہیں ہیں۔

ایک رپورٹ کےمطابق امریکہ میں کورونا وائرس میں مبتلا تقریباً دس لاکھ افراد کو  وینٹی لیٹرز کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ڈاکٹروں کو مریضوں میں انتخاب کرنا ہوگا کہ کس کو زندہ رکھنا ہے اور کس کو مرنے کے لیے چھوڑنا ہوگا۔ حال ہی میں اٹلی میں 70 سال سے زائد عمر کے ایک مریض نے اپنا وینٹی لیٹر ایک نوجوان کو استعمال کرنے لیے دے دیا جو کورونا کا شکار تھا۔ خود 70 سالہ شخص سانس کی تکلیف سے انتقال کر گیا۔

برطانیہ کی 65 کروڑ آبادی کے لیے صرف آٹھ ہزار وینٹی لیٹرز ہیں جبکہ اس نے جوہری سسٹم ٹرائڈینٹ پر 205 ارب پاؤنڈز خرچ کئے ہیں۔ ایک وینٹی لیٹر کی قیمت یہاں تقریباً پانچ ہزار پاؤنڈز ہے۔ اگر جوہری ہتھیاروں پر خرچ کرنے کی بجائے یہ رقم طبی سیکٹر میں خرچ کی گئی ہوتی تو کیا آج کورونا میں مبتلا مریضوں میں سیلکشن کرنے کی نوبت آتی؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اٹلی میں کورونا سے مرنے والوں کی تعداد کیوں بڑھ گئی؟ اس لیے کہ وہاں ہسپتالوں میں سانس لینے میں مددگار وینٹی لیٹر موجود نہیں ہیں۔ یہی حال اب سپین کا ہے جہاں مرنے والوں کی تعداد چین سے تجاوز کر چکی ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ یورپ میں 60 سال سے زائد عمر کی سوا تیس کروڑ آبادی ہے جن میں سے تقریباً 80 فیصد کو وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس کے باوجود ہسپتالوں میں ان کے لیے ایمرجینسی انتظامات نہیں ہیں جس پر سے کورونا وائرس کی وبا نے پردہ اٹھایا۔

عوام کو ان سیاست دانوں کو ہمیشہ کے لیے گھروں میں لاک ڈاؤن رکھنا چاہیے جنہوں نے انسانی صحت کی بنیادی سہولیات کو فراموش کر کے مہلک ہتھیاروں کی خرید فروخت پر ملک کا سرمایہ ضائع کیا اور جس کا خمیازہ اس وقت سات ارب آبادی اٹھا رہی ہے۔

غریب ملکوں کے عوام کو خاص طور سے ان سیاست دانوں کو سرے سے رد کرنا چاہیے جو مذہب، رنگ اور جنگ کے جذبات ابھار کر عوام میں انتشاری کیفیت پیدا کر رہے ہیں جبکہ ہسپتالوں میں ہزاروں لوگ اس وقت بے یارو مددگار سانس لینے کی ایک مشین کے لیے ترس رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ