کرونا ریلیف فنڈ: چند گذارشات

عوام سے چندے کی اپیل کی گئی ہے تو عوام کو بتایا جائے کہ حکمران اس معاملے میں آپ سے آگے کھڑا ہے اور اس نے اتنی بھاری رقم عطیہ کر کے ایک مثال قائم کر دی ہے۔

اس فنڈ مہم کی کامیابی کا پیمانہ البتہ یہ نہیں ہے کہ لوگ اس میں کتنے پیسے جمع کرواتے ہیں، اس کی کامیابی کا پیمانہ یہ ہو گا کہ تھوڑی یا بہت، جتنی بھی رقم اکٹھی ہوتی ہے کیا عمران خان اس کے شفاف اور معقول استعمال کو یقینی بنا سکتے ہیں۔(اے ایف پی)

عمران خان نے کرونا ریلیف فنڈ قائم کر دیا ہے، سوال یہ ہے قرض اتارو ملک سنوارواور ڈیم فنڈ جیسے تجربات کے بعد کیا ہمیں اس فنڈ میں رقوم جمع کرانی چاہییں؟

ماضی کے تلخ تجربات، عمال حکومت کی بد عنوانی اور  عمران خان کے طرز حکومت سے شدید تر مایوسی کے باوجود اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ تمام حجت کے طور پر ہی سہی، ہمیں اپنی حیثیت کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ عمران اب اچھے لگیں یا نہ لگیں، مصیبت نے دہلیز پر دستک دے دی ہے اور وزارت عظمیٰ کا منصب انہی کے پاس ہے۔ نظم اجتماعی کے فیصلے بہر حال وزیر اعظم ہی نے کرنے ہیں۔

اس فنڈ مہم کی کامیابی کا پیمانہ البتہ یہ نہیں ہے کہ لوگ اس میں کتنے پیسے جمع کرواتے ہیں، اس کی کامیابی کا پیمانہ یہ ہو گا کہ تھوڑی یا بہت، جتنی بھی رقم اکٹھی ہوتی ہے کیا عمران خان اس کے شفاف اور معقول استعمال کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ جس طرح عمران خان اس سیاست کا آخری رومان تھے، اسی طرح کرونا ریلیف فنڈ بھی اس سماج کے اہلِ خیر کا آخری رومان ہو گا۔ اس فنڈ مہم کا حشر بھی اگر پہلے جیسی مہموں کی طرح ہوا تو یہ گویا ’شیر آیا، شیر آیا‘ کی کہانی کا آخری باب ہو گا۔

حکومت وقت اور عوام میں بے اعتمادی کی خلیج مزید وسیع ہو جائے گی اور اس کے بعد اس ملک میں کسی حکومت کے لیے کسی بھی سنگین صورت حال میں عوام سے عطیات کی اپیل کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔ امتحان اب اہلِ خیر کا نہیں کہ وہ کتنے عطیات جمع کر اتے ہیں، امتحان جناب وزیر اعظم کا ہے کہ وہ ان عطیات کے استعمال میں خود احتسابی اور شفافیت کی کوئی مثال قائم کر پاتے ہیں یا نہیں۔کٹہرے میں اہل وطن نہیں ہیں، کٹہرے میں حاکم وقت ہے۔

عمران خان جب اقتدار میں آئے تو یہ خوش فہمی ان کے ہمراہ تھی کہ وہ ایک کال دیں گے اور اوورسیز پاکستانی ڈالروں کے انبار لگا دیں گے۔ وقت نے ان پر عیاں کر دیا یہ ان کی خوش فہمی ہی تھی۔اس وقت بھی وہ ایسی ہی کسی خوش گمانی کے اسیر ہیں تو وہ الگ بات ہے لیکن زمینی حقائق آج بھی وہی ہیں اور نتائج بھی، غالب امکان ہے کہ، ویسے ہی ہوں گے۔ حکومت جب اپنے شہریوں سے کسی مد میں فنڈ مانگتی ہے تو اسے شہریوں کے نفسیاتی مطالبات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ایک شہری جسے ہر پہر پیاس بجھانے کے لیے اپنا کنواں اپنے ہاتھوں سے کھودنا پڑے، حکومت کو فنڈ کیوں دے؟یہ محض سوال نہیں، یہ ایک نفسیاتی گرہ ہے، جو شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔ اسے کھولنا ہے تو چند اقدامات ناگزیر ہیں۔

پہلا کام یہ ہو گا کہ عمران خان کو آگے بڑھ کر قیادت کرنا ہو گی، یعنی ’لیڈ فرام دی فرنٹ‘۔ عوام سے چندے کی اپیل کی گئی ہے تو عوام کو بتایا جائے کہ حکمران اس معاملے میں آپ سے آگے کھڑا ہے اور اس نے اتنی بھاری رقم عطیہ کر کے ایک مثال قائم کر دی ہے۔ اس کے بعد ان کی کابینہ اور اراکین پارلیمان کی باری آتی ہے۔ یہ پورا حکمران طبقہ اگر ایثار اور قربانی کی ایک مثال قائم کر دیتا ہے تو لوگوں کی نفسیاتی گرہ کھل جائے گی  ورنہ وہ حکومت کو عطیات دینے میں تامل اور تذبذب کا شکار رہیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ چونکہ یہ سارا عمل رضاکارنہ ہے اس لیے اس کی روح کو مجروح کو نہ ہونے دیا جائے۔سرکاری ملازمین کی تنخواہ کاٹ لینا کسی بھی حکومت کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے لیکن اس سے یہ معاملہ رضاکارانہ نہیں رہتا۔ اس میں جبر شامل ہو جاتا ہے جو رد عمل کو جنم دیتا ہے۔ ڈیم فنڈ میں ایسا ہی ہوا تھا۔ کہنے کو تو کہہ دیا گیا کہ ملازمین کی رضامندی سے پیسے کاٹے گئے لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ پورے ملک کے سرکاری ملازمین میں سے کسی ایک نے بھی اس کٹوتی پر اختلاف نہ کیا ہو۔

اس وقت یہاں تک کہہ دیا گیا جس نے ڈیم فنڈ سے اختلاف کیا اس پر آرٹیکل چھ لگا دیا جائے گا۔ حالانکہ آرٹیکل چھ کا تعلق صرف اور صرف آئین شکنی سے ہے، کسی فنڈ سے اختلاف پر آرٹیکل چھ لگ ہی نہیں سکتا نہ ہی وفاقی حکومت کے علاوہ کوئی کسی پر یہ آرٹیکل لگا سکتا ہے۔جبر کا عنصر خیر کے تصور کو گھائل کر دیتا ہے۔

تیسرا پہلو اس فنڈ کے آڈٹ اورشفافیت سے متعلق ہے۔  یہاں مختلف ادوار میں مختلف عنوانات کے تحت مختلف حکومتیں، ادارے اور شخصیات فنڈ اکٹھے کرتی رہیں۔عوام کو کچھ خبر نہیں ان کا آڈٹ ہوا یا نہیں اور ان کے استعمال میں شفافیت کتنی رہی۔ یہ ابہام بہت نقصان دہ ہے۔ یہ اعتماد کے رشتے کو کمزور کرتا ہے۔ افراد اور ادارے تو شاید اس کے متحمل ہو سکیں، ریاست اس بد اعتمادی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

شہباز شریف نے کرونا ریلیف فنڈ میں شفافیت کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مطالبہ اس حقیقت کے باوجود مان لینا چاہیے کہ نواز شریف نے قرض اتارو ملک سنوارو سکیم کی شفافیت کے لیے ایسا کوئی اہتمام نہیں کیا تھا۔

آخری بات یہ کہ فنڈ تھوڑا ہو یا زیادہ، اس کے حجم اور استعمال کے حوالے سے عوام کو آگاہ رکھنا ضروری ہے۔ اس کے استعمال میں شفافیت بھی ناگزیر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک قابل عمل منصوبہ بھی ہونا چاہیے جہاں اس فنڈ کا استعمال ہو۔ کرونا ریلیف ٹائیگر فورس کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں اور حزب اختلاف اس بدگمانی کا اظہار کر رہی ہے کہ یہ فورس اصل میں یہ اہتمام ہے کہ غریب عوام میں وسائل تحریک انصاف کے رضاکاروں کے ذریعے تقسیم کیے جائیں تا کہ یہ سرگرمی  بلدیاتی انتخابات میں کام آئے۔

ہو سکتا ہے یہ محض بد گمانی ہی ہو لیکن اس پہلو پر غور کر لینا چاہیے کہ ٹائیگر فورس کی ضرورت ہے یا مقامی حکومتوں کے معطل ڈھانچے کو بحال کر کے فلاحی سرگرمیاں شروع کی جا سکتی ہیں۔

ہر سماج کی ایک یاد داشت ہوتی ہے۔ یہ یاد داشت اس معاشرے کی نفسیاتی صورت گری میں اہم کردار کرتی ہے۔ قرض اتارو ملک سنوارو اور ڈیم فنڈ بھی ہماری اجتماعی یادداشت کے دو اہم پڑاؤ ہیں۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ حکومتی مشینری پر اعتماد لرز رہا ہے اورلوگ براہ راست امداد دینا یا غیر سرکاری رفاہی اداروں کے ذریعے امداد دینا پسند کر رہے ہیں۔اس صورت حال میں یہ اہم نہیں ہے کہ کتنی رقم اکٹھی ہوتی ہے۔ اہم یہ ہے کہ عمران خان اعتماد کے اس لرزتے ستون کو تھام پاتے ہیں یا یہ منہدم ہونے جا رہا ہے۔

معاشی پہلو سے زیادہ سماج کا نفسیاتی پہلو اہم ہے۔سوال یہ ہے کیا عمران خان کو معاملے کی نزاکت کا احساس ہے؟

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ