’کرونا کا کہہ کر ملازمہ کو آخری رسومات کے بغیر ہی دفنا دیا‘

کھاریاں میں 18سالہ گھریلو ملازمہ کی موت کے بعد ان کے والد نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ جن ڈاکٹر کے ہاں کام کرتی تھی انہوں نے موت کی اصل وجہ چھپانے کے لیے کرونا وائرس کا بہانہ بنایا۔

(اے ایف پی فائل فوٹو)

پنجاب کے شہر کھاریاں میں نجی کیلنک چلانے والے ایک ڈاکٹر پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے شک کی بنیاد پر اپنی 18 سالہ گھریلو ملازمہ کی لاش کو ان کی موت کے بعد تابوت میں بند کر کے ان کے لواحقین کو بھلوال بھجوا دیا اور انہیں آخری رسومات کے بغیر ہی دفن کروا دیا۔

ڈاکٹر  محمد علی کے گھر کام کرنے والی 18 سالہ مقتولہ رمشہ یاسین کے والد کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ منفی آیا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ اسے تشدد کر کے مارا گیا ہے اور اس جرم کو چھپانے کے لیے ڈاکٹر محمد علی نے اسے کرونا وائرس ہونے کا بہانا کیا ہے۔  

غلام یاسین، جو بھلوال کے ایک محنت کش ہیں، کا کہنا ہے کہ انہوں نے تین ماہ پہلے اپنی بیٹی رمشہ کو ڈاکٹر محمد علی کے گھر ملازمت کے لیے بھجوایا تھا۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ انتہائی غریب ہیں اور بیوی بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے پوری کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی بہن کی شادی کے لیے ایک سال کی گھریلو ملازمت کی غرض سے ڈاکٹر محمد علی سے ایک لاکھ بیس ہزار روپے اجرت کے طور پر ایڈوانس میں لے لیے۔ اس کے بدلے میں ان کی بہن کو ڈاکٹر کے گھر ملازمت پر رکھوا دیا لیکن چونکہ اس کی شادی کرنا تھی تو باقی کے عرصے کے لیے انہوں نے رمشہ کو ڈاکڑ کے گھر بھجوا دیا۔

غلام یاسین نے بتایا: 'تین ماہ پہلے وہ لڑکی کو لے کر گئے۔ اس دوران ایک ماہ پہلے صرف فون پر ایک بار ہی بات کرائی گئی۔'

انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر محمد علی نے انہیں 27 مارچ کو فون کر کے کہا کہ ان کی بیٹی کرونا وائرس سے ہلاک ہوگئی ہے اور وہ اس کی میت کو تدفین کے لیے اس کے گھر بھجوا رہے ہیں لیکن تابوت کو نہ کھولا جائے۔

والد کے مطابق: 'لاش بھی ڈاکٹر نے اپنی گاڑی میں بھجوائی اور دو افراد ساتھ تھے۔ انہوں نے کہا کہ قبرستان بتاو کہاں ہے۔ وہاں لے جاکر دفن کردیا گیا۔ نہ لاش ہمارے حوالے کی گئی نہ ہی آخری رسومات کی اجازت دی گئی۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ نے کہا کہ جب رمشہ کے ٹیسٹ کی رپورٹ آئی تو اس میں موت کی وجہ کرونا وائرس نہیں تھا جس پر انہوں نے پولیس تھانہ کھاریاں کینٹ میں مقدمہ درج کرا دیا لیکن پولیس نے مقدمہ درج ہونے کے باوجود ملزم کو گرفتار نہیں کیا۔

غلام یاسین کے مطابق بیٹی کی لاش کی تدفین سے فوراً بعد مقامی انتظامیہ نے ان کے گھر کو بھی سیل کر دیا جبکہ انہیں بتایا بھی گیا تھا کہ ان کی بیٹی تو تین ماہ سے ڈاکٹر محمد علی کے گھرہی رہی ہے۔

انہوں نے کہا: 'جوان بیٹی کو تین ماہ پہلے صحت مند بھیجا تھا، تابوت میں مری ہوئی واپس آئی، آخری دیدار بھی نصیب نہ ہوا۔'

قانونی کارروائی

تفتیشی افسر خالد محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیشن عدالت نے رمشہ یاسین کی قبر کشائی کے احکامات جاری کر دیے ہیں اور جمعے کو علاقہ مجسٹریٹ اور لیڈی ڈاکٹر کے ہمراہ بھلوال میں جاکر مقتولہ کی لاش کے نمونے لیے جائیں گے اور معائنے کے لیے لیبارٹری بھجوائے جائیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر محمد علی لڑکی کو تشویشناک حالت میں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کھاریاں لے کر گئے اور وہاں اسے کرونا وائرس لاحق ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تو ہسپتال انتظامیہ نے اس کے نمونے لے کر ٹیسٹ کے لیے بھجوائے۔

تاہم اس کے بعد رمشہ دم توڑ گئی۔ ڈاکٹر نے اس کے والدین کو فون کردیا کہ وہ کرونا وائرس کے باعث فوت ہوگئی ہے۔ لیکن بعد ازاں ٹیسٹ رپورٹ میں پتہ چلا کہ اس میں کرونا وائرس پایا ہی نہیں گیا جس کے بعد مقتولہ کے والدین کو اطلاع ملی کہ رپورٹ میں کرونا وائرس کی تشخیص نہیں ہوئی تو انہوں نے قانونی کارروائی کے لیے پولیس سے رجوع کیا۔

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول دستاویزات کے مطابق لڑکی 27 مارچ کو فوت ہوئی۔ اس کی ٹیسٹ رپورٹ 29 مارچ کو موصول ہوئی اور والد کی شکایت پر ڈاکٹر محمد علی کے خلاف مقدمہ یکم اپریل کو درج کیا گیا۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) گجرات توصیف حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈاکٹر محمد علی کی جانب سے متعلقہ تھانے میں جو بیان ریکارڈ کرایا گیا اس میں رمشہ کی موت کرونا وائرس لاحق ہونے کے باعث بتائی گئی ہے لیکن رپورٹ منفی آنے پر شکوک شبہات نے ضرور جنم لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بغیر ثبوت کے ملزم کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا اور قبرکشائی کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ رمشہ کی موت کی وجہ کیا تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر طبی معائنہ میں موت کی وجہ تشدد یا زیادتی ثابت ہوگئی تو فوری طور پر ملزم کو گرفتار کر لیا جائے گا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے ڈاکٹر محمد علی سے ان کا موقف لینے کے لیے رابطہ کیا تاہم انہوں نے جواب نہیں دیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان