کیئر سٹارمر  کی سربراہی میں برطانیہ کی لیبر پارٹی کا 'نیا دور'

سر کیئر لیبر پارٹی کی 120 سالہ تاریخ میں آج اس کے 19 ویں سربراہ بنے ہیں، وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔

دو ستمبر 1962 کو پیدا ہونے والے کیئر سٹارمر 2020 سے لیبر پارٹی کے رہنما اور قائد حزب اختلاف ہیں(تصویر: اے ایف پی)

برطانیہ میں لیبر پارٹی کے رہنما سرکیئر سٹارمر نے لینڈ سلائیڈ فتح کے ساتھ پارٹی کا نیا سربراہ منتخب ہونے کے بعد اسے پارٹی کا 'نیا دور' قرار دیا ہے۔ انہوں نے تین ماہ تک جاری رہنے والے مقابلے کے  بعد جیریمی کوربن کی جگہ لی ہے۔

سر کیئر لیبر پارٹی کی 120 سالہ تاریخ میں آج اس کے 19 ویں سربراہ بنے ہیں۔ انہوں نے پارٹی کی سربراہی کے لیے بائیں بازو کی امیدوار اور کاروباری امور کی شیڈو وزیر ریبیکا بیلے اور وِگن کے علاقے سے رکن پارلیمنٹ لیزا نینڈی کو شکست دی۔

لیبر پارٹی کے الیکٹوریٹ کے تمام شعبوں جن میں رجسرڈ سپورٹر، ارکان اور پارٹی سے منسلک افراد شامل ہیں، سے متاثرکن اکثریت اور مجموعی طور پر 56.2  فیصد ووٹ حاصل کرنے بعد انہوں نے کہا: 'یہ میری زندگی کا اعزاز  اور حق' ہے کہ میں پارٹی کا قائد منتخب ہوا ہوں۔

انہوں نے اصرار کیا: 'میں اس جماعت کو نئے دور میں لے جاؤں گا، اعتماد اور امید کے ساتھ تاکہ جب وقت آئے تو ہم حکومت میں آکر ایک بار پھر ملک کی خدمت کرسکیں۔'

دو ستمبر 1962 کو پیدا ہونے والے کیئر سٹارمر 2020 سے لیبر پارٹی کے رہنما اور قائد حزب اختلاف ہیں۔ وہ 2015 سے ہولبورن اور سینٹ پینکراس سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔ 2015 میں وہ دارالعوام کے رکن منتخب ہوئے اور جیریمی کوربن نے انہیں امیگریشن کا شیڈو جونیئر وزیر مقررکیا۔

وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ بار کا رکن بننے کے بعد انہوں نے خاص طور پر انسانی حقوق کے مقدمے لڑے اور 2002 میں ملکہ کے وکیل مقرر کیے گئے۔ 2008 میں انہیں ڈائریکٹر پبلک پراسیکیوشن اور کراؤن پراسیکیوشن سروس کا سربراہ بنا دیا گیا۔

شیڈو وزیر تعلیم اینجلا رینر کے لیبر پارٹی کی نئی ڈپٹی لیڈر منتخب ہونے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ انہوں نے مقابلے میں رچرڈ برگن، ڈان بٹلر، روزینہ ایلن خان اور آئن مَرے کو شکست دے کر52.6  فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیبر پارٹی کے نئے سربراہ کے لیے انتخاب سابق سربراہ جیریمی کوربن کے عہدہ چھوڑنے کے اعلان کے بعد ہوا۔ انہوں نے ساڑھے چار برس تک پارٹی کی قیادت کی اور 1935 کے بعد سے عام انتخابات میں پارلیمنٹ میں نشستوں کے اعتبار سے پارٹی کے لیے بدترین نتیجہ سامنے آنے کے  بعد عہدہ چھوڑا۔

بریگزٹ کے شیڈو وزیر 57 سالہ کیئر شروع سے ہی دوڑ میں آگے رہے۔ انہیں مقابلے کے پہلے راؤنڈ میں پارلیمانی پارٹی کے 89 ارکان کی حمایت حاصل تھی۔ اس کے بعد دوسرے راؤنڈ میں انہیں پارٹی سے منسلک 12 سے زیادہ تنظیموں کی حمایت حاصل ہو گئی۔

فروری کے آخر میں پارٹی کے پانچ لاکھ ارکان، منسلک ٹریڈ یونینوں اور 14700 'رجسٹرڈ حامیوں' کو بیلٹ پیپر بھیجے گئے جن میں سے ہر ایک نے انتخابی عمل میں شامل ہونے کے صرف ایک بار کے اصول پر 25 پاؤنڈ ادا کیے۔

لیبر پارٹی نے صبح 10 بج کر 45 منٹ پر مقابلے کے نتائج کا اعلان کیا کیونکہ پارٹی کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کی وجہ سے خصوصی ارکان کی طے شدہ کانفرنس منسوخ کرنے پر مجبور ہو گئی تھی۔ برطانیہ میں کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم مؤثر انداز میں معطل کردی تھی۔

جیریمی کوربن کے استعفے کے ساتھ ہی وزیراعظم بورس جانسن نے ویسٹ منسٹر میں حزب اختلاف کی جماعتوں کو خط لکھ کر اگلے ہفتے سینیئر حکومی مشیروں کی بریفنگ میں شرکت کی دعوت دی۔ ان کا اصرار تھا: 'قومی اتحاد کے اس لمحے میں مل کر کام کرنا ہمارا فرض ہے۔'

انہوں نے مزید لکھا: 'میں آپ کے خیالات سننا چاہتا ہوں اور آپ کو ان اقدامات سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جو ہم نے اب تک کیے ہیں۔ ان اقدامات میں ملک بھر میں کرونا کے تیزی سے ٹیسٹ کرنا اور کاروباری طبقے اور انفرادی سطح  پر مالی معاونت کرنا شامل ہے۔'

سر کیئر نے اپنی واضح فتح کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرونا وائرس کے بحران کی وجہ سے برطانیہ میں معمولات زندگی معطل ہو کر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا: 'لوگ عجیب صورت حال سے خوف زدہ  اور پریشان ہیں کہ مستقبل میں کیا ہو گا۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ ہر عدد ایک خاندان ہے جس کی بنیادی تک ہل گئی ہیں۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا