ان عورتوں کا قرنطینہ کب ختم ہو گا؟

اپنا قرنطینہ تو کچھ دن یا کچھ ہفتوں میں ختم ہو جائے گا، ان کے قرنطینہ کا کیا ہو گا؟ وہ تو جانے کب سے چل رہا ہے اور خدا جانے کب تک چلے گا۔  

(اے ایف پی)

کرونا کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگ قرنطینہ میں رہنے پر مجبور ہیں۔ وطنِ عزیز میں بھی یہی دور چلا رہا ہے۔ وہ گھر جو اتنی چاہتوں سے بنایا تھا، اب دل کرتا ہے اسے تالا لگائیں اور کہیں سیاحت کو نکل جائیں، پر کہاں جائیں، پوری دنیا ہی بند پڑی ہے۔

اپنے پاس تو بس یہی چار دیواری اور اس کے مکین ہیں۔ کبھی سوچتے تھے، چھٹی ہو تو پورا دن بستر میں ہی پڑے رہیں گے، اب اس انتظار میں ہیں کہ کب زندگی معمول پر آئے اور گھر سے نکلنا نصیب ہو۔

ہماری آدھی آبادی تو ویسے بھی قرنطینہ میں رہ رہی تھی، ہمارا قرنطینہ اب شروع ہوا ہے۔ 15 ہی دن میں ہی ہماری بس کیوں ہو گئی ہے؟ ارے ان سے پوچھو جو سالوں سے اس چار دیواری میں قید ہیں۔ ہم تو سگریٹ پینے، سودا لینے یا یونہی دس بارہ منٹ کو گھر سے باہر چلے ہی جاتے ہیں، وہ بے چاریاں کیا کریں؟ کمرے میں دل گھبراتا ہے تو کچن کو چل پڑتی ہیں، وہاں اکتاہٹ محسوس ہو تو ڈارائنگ روم کے دورے کو چل پڑتی ہیں، پھر بھی بوریت ختم نہ ہو تو کوئی نہ کوئی کام نکال کر بیٹھ جاتی ہیں۔ کوئی ایک آدھی دروازے کا کھڑکی کے ساتھ کھڑی باہر کا نظارہ بھی کر لیتی ہے، یہی ان کا دل بہلانے کا سامان ہے۔

ان دنوں امی بہت یاد آتی ہیں۔ کبھی اچانک کہتی تھیں دل گھبرا رہا ہے، چلو کہیں چلیں۔ ہم ہنستے تھے کہ یہ کیسی گھبراہٹ ہے جو گاڑی میں بیٹھتے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اب جب اپنا دل گھبراتا ہے تو ان کی کیفیت سمجھ آتی ہے۔ اپنا تو مست ماحول ہے نہ شوہر ہے اور نہ سسرال۔ اپنی زندگی ہے، اپنی مرضی ہے۔ کہیں جانے سے پہلے کسی سے پوچھنا نہیں پڑتا، کچھ کرنے سے پہلے کسی کو بتانا نہیں پڑتا۔ ایسی آزادی ہر عورت کے نصیب میں نہیں ہوتی۔  

یہ عورتیں کبھی گھر سے نکلنا بھی چاہیں تو دس مصلحتیں ان کے آڑے آ جاتی ہیں۔ کبھی شوہر نہیں مانتا تو کبھی ساس سسر کوئی بہانہ بنا دیتے ہیں یا کبھی کوئی تیسرا مسئلہ ان کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ کبھی کبھار تو اپنے ماں باپ کے گھر جانا ہی خواب بن جاتا ہے۔ پہلے انا کے مارے اجازت نہیں دیتے تھے، اب کرونا کا بہانہ بھی مل گیا۔ جس گھر میں پلی بڑھی، وہی گھر اب سسرال والوں کو کھٹکتا ہے۔

شوہر کے ساتھ کہیں جانا ہو تو دس نظریں دروازے تک تعاقب کرتی ہیں۔ سب ساتھ جائیں تو وہ ایسا کہ اس سے اچھا تو گھر ہی بیٹھے تھے۔ چادر سنبھالو، منا سنبھالو، زیادہ نہ ہنسو، نظریں نیچی رکھو، پیچھے پیچھے چلو۔ ارے کیوں؟ اپنی عزت اپنے ہاتھ رکھو، مجھے موسم سے تو لطف اٹھانے دو۔ معاشرے کا خوف نہ ہو تو شاید ایسا ہی کوئی جملہ چٹخ کر کہہ ہی دیں پر کیا کریں۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپنا قرنطینہ تو کچھ دن یا کچھ ہفتوں میں ختم ہو جائے گا، ان کے قرنطینہ کا کیا ہو گا؟ وہ تو جانے کب سے چل رہا ہے اور خدا جانے کب تک چلے گا۔  

کچھ سال قبل ایک برگر جوائنٹ پر ایک خاندان کا ایسا ہی آنکھوں دیکھا حال دیکھا تو دل افسوس سے بھر گیا۔ حلیے سے مذہبی لوگ معلوم ہوتے تھے۔ مردوں نے ٹخنوں سے اوپر شلواریں باندھی ہوئی تھیں اور خواتین نے اپنے چہرے نقاب کے پیچھے چھپائے ہوئے تھے۔ بیٹھنے کی باری آئی تو خواتین کو ایسے بٹھایا گیا کہ ان کا منہ دیوار کی طرف اور پشت ریستوران میں موجود دیگر لوگوں کی طرف تھی۔ اکثر نقاب پوش خواتین ریستوران میں ایک کونے میں ہی بیٹھتی ہیں تاکہ ان پر لوگوں کی نظر نہ پڑے اور وہ نقاب اتار کر اطمینان سے کھانا کھا سکیں۔

ویٹر آرڈر لینے آیا تو مردوں میں سے کسی ایک نے اسے آرڈر لکھوا دیا۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ اس نے کسی سے اس کی مرضی پوچھنے یا کسی کو مینیو کارڈ دیکھنے کا بھی موقع نہیں دیا۔ ویٹر سے کچھ سوال جواب کیے اور جو برگر سمجھ میں آیا، وہی سب کے لیے منگوا لیا۔ کولڈ ڈرنک کی دفعہ بھی یہی ہوا۔ جو ڈرنک اسے پسند تھی، اس نے وہی سب کے لیے منگوا لی۔ وہ شاید اس خاندان کا کرونا تھا۔ جو وہ چاہے گا وہی ہو گا۔ ارے بھائی پوچھ تو لو۔ ریستوران آئے ہو، بل بھی اپنی جیب سے دو گے، اگر سب اپنی مرضی کا کھانا کھا لیں تو کیا برا ہے؟

ویٹر کے جانے کے بعد مرد آپس میں باتیں کرنے لگے، بچے ان کے ساتھ چپکے ہوئے ان کی باتیں سن رہے تھے جبکہ خواتین چپ چاپ نظریں جھکائے بیٹھی تھیں۔ بات کرنے کی آزادی بھی نہیں۔  

تھوڑی دیر میں ہی ان کا کھانا سرو ہونے لگا۔ خواتین نے پہلے تو اپنے نقاب کے نیچے سے ہی برگر کھانے کی کوشش کی۔ جب معاملہ بنتا نظر نہیں آیا تو ایک ایک کر کے سب نے اہنے نقاب گرا دیے اور پلیٹوں پر جھکی تیزی سے برگر کھانے لگیں۔  ان کے انداز سے پریشانی جھلک رہی تھی۔ انہیں اتنی پریشانی میں برگر کھاتا دیکھ کر مجھے افسوس ہو رہا تھا۔ برگر ختم ہوا تو انہوں نے نقاب واپس پہن لیے۔ پتہ نہیں انہوں نے برگر کا ذائقہ بھی ٹھیک سے محسوس کیا تھا یا نہیں۔ کیا فائدہ ان کے ریستوران آنے کا۔ ان کا قرنطینہ تو وہاں بھی ان کے ساتھ تھا۔

اب جب لوگوں کو قرنطینہ میں اکتایا ہوا دیکھتی ہوں تو مجھے وہ خواتین یاد آ جاتی ہیں۔ ہمارا قرنطینہ تو کچھ روز بعد ختم ہو ہی جائے گا، ان کا قرنطینہ کب ختم ہو گا؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ