پاکستان واپسی پر لازمی قرنطینہ پرتعیش بھی ہو سکتی ہے؟

حکومت نے ہسپتالوں سمیت نجی ہوٹلوں میں قرنطینہ مراکز قائم کیے ہیں جہاں بیرون ملک سے پاکستان واپس لوٹنے والوں کو رکھا جارہا ہے۔

3 فروری کی اس تصویر میں چین سے لوٹنے والے پاکستانی طلبہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر (اے ایف پی)

اگر آپ بیرون ملک سے پاکستان واپس لوٹ رہے ہیں، اور اخراجات برداشت کر سکتے ہیں، تو وطن پہنچنے کے بعد قرنطینہ میں اپنے لازمی قیام کو زیادہ پرتعیش بنا سکتے ہیں۔

بیرون ملک سے واپس آنے والے پاکستانی شہریوں کے لیے ملک پہنچنے پر کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے کچھ وقت قرنطینہ میں گذارنا ضروری ہے۔

حکومت نے ملک بھر میں سینکڑوں قرنطینہ مراکز قائم کر رکھے ہیں جن میں باہر سے آنے والوں کو لازمی کچھ عرصے کے لیے رکھا جا رہا ہے۔

تاہم استطاعت رکھنے والے پاکستانیوں کو پرتعیش قرنطینہ قیام کی سہولت پیش کی جائے گی، جہاں رہائش اختیار کرنے والوں کو اخراجات خود برداشت کرنا ہوں گے۔

مہلک کرونا وائرس کی وبا کے باعث دنیا بھر میں پروازوں پر پابندی عائد ہے اور لاکھوں لوگ مختلف ملکوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک میں اس وقت 35 ہزار پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں جو وطن واپس لوٹنا چاہتے ہیں۔ان پاکستانیوں میں نوکریوں سے نکالے گئے افراد، طالب علم، سیر اور کاروبار اور دوسرے مقاصد سے بیرون ملک سفر کرنے والے شامل ہیں۔

منگل کو قومی رابطہ کمیٹی نے مختلف ملکوں میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کے لیے ملک میں چھ ائیر پورٹ کھولنے کا فیصلہ کیا۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے بیرون ملک پاکستانی زلفی بخاری نے بدھ کو ایک پیغام میں بتایا کہ وفاقی حکومت نے ہر ہفتے آٹھ ہزار پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کی اجازت دی ہے۔

لازمی قرنطینہ

پاکستان میں کرونا وائرس بیرون ملک سے درآمد ہوا۔ سب سے پہلے ایران سے آنے والے زائرین اور بعد میں سعودی عرب اور دیگر ممالک سے لوٹنے والے ملک میں اس مہلک وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ بنے۔ کرونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے لیے مشتبہ افراد کو اسی لیے قرنطینہ میں رکھنا اہم ہے۔

شہری ہوابازی کے نگران ادارے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) نے منگل کو بیرون ملک سے آنے والی پروازوں اور مسافروں سے متعلق نئے ایس او پیز جاری کیے۔

ان ایس او پیز کے تحت بیرون ملک سے جہاز کے ذریعہ آنے والے مسافروں کو حکومت کے قائم کردہ قرنطینہ مراکز میں کم از کم سات روز تک قیام کرنا ہو گاجس دوران ان کی صحت کا مشاہدہ اور کووڈ۔19 کی علامات کے ظاہر ہونے کی صورت میں کرونا وائرس کا ٹیسٹ کیا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ایک اہلکار نے بتایا کہ شاید سات دن تک اتنے سارے لوگوں کو قرنطینہ میں رکھنا ممکن نہیں ہو گا، اس لیے ہو سکتا ہے کہ ہم مسافروں کے پہنچتے ہی کرونا وائرس کے ٹیسٹ کروائیں اور صرف مثبت ثابت ہونے والوں کو روک کر باقی کو جانے دیں۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اس بات کا انحصار ٹیسٹ کی سہولت کا وافر مقدار میں مہیا ہونے پر ہو گا۔

قرنطینہ مراکز

پاکستان بھر میں قرنطینہ مراکز قائم کیے گئے ہیں جہاں باہر سے آنے والے پاکستانیوں کو رکھا جا رہا ہے۔ ان مراکز میں سرکاری ہسپتال اور دیگر جگہیں جیسے اسلام آباد میں پاک چین دوستی مرکز اور حاجی کیمپ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت نے کئی ایک نجی ہوٹلوں میں بھی قرنطینہ مراکز قائم کیے ہیں۔

پاکستان ہوٹلز ایسوسی ایشن کی سیکریٹری جنرل فوزیہ ہاشم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لاہور میں بھی چند ہوٹلوں کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک سے آنے والے ٹرانزٹ کے مسافروں کو ان ہوٹلوں میں رکھا گیا تھا اور ان میں سے کوئی بھی کووڈ۔19 کا مریض نہیں تھا۔ یہ محض ایک احتیاط تھی۔

تاہم فوزیہ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایک نجی ہوٹل کو قرنطینہ مرکز میں تبدیل کرنے کا حکومت کا فیصلہ بالکل غلط ہے۔ 

یاد رہے کہ چند روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے نجی ہوٹلوں کو قرنطینہ مراکز میں تبدیل کرنے کے حکومتی اقدام کے خلاف دائر درخواست یہ کہتے ہوئے خارج کر دی تھی کہ ایمرجنسی صورت حال میں  حکومت کوئی بھی مناسب اقدام اٹھا سکتی ہے۔

نجی ہوٹلوں میں قرنطینہ مراکز قائم کرنے کا تجربہ صرف پاکستان میں ہی نہیں کیا جا رہا، بلکہ بھارت اور چین میں بھی یہی ہو رہا ہے۔

پرتعیش قرنطینہ

اس وقت تک ملک بھر کے قرنطینہ مراکز میں رہائش پذیر کرونا وائرس کے مشتبہ افراد اور بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کو مہیا سہولیات کے اخراجات حکومت پاکستان ادا کر رہی ہے۔

تاہم اب سی اے اے نے فیصلہ کیا ہے کہ بیرون ملک سے آنے مسافروں میں اگر کوئی چاہے تو قرنطینہ کا لازمی عرصہ کسی ہوٹل میں گذار سکتے ہیں جس کے لیے انہیں اخراجات ادا کرنا ہوں گے۔

اسلام آباد میں واقع ایک فور سٹار ہوٹل کے منیجر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے ایک منزل قرنطینہ کے مقاصد کے  لیے مختص کر دی ہے۔نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ اس منزل پر سٹینڈرڈ اور ڈیلکس کمرے موجود ہیں، جہاں بیرون ملک سے آنے والوں کو ان کے انتخاب کے مطابق ٹھرایا جائے گا۔

قرنطینہ کا خرچہ

سی اے اے کے ایک سینئیر ڈائریکٹر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ابھی قرنطینہ کے خرچے سے متعلق تفصیلات طے کی جارہی ہیں اور اس سلسلے میں الگ ایس او پیز بنائے جا سکتے ہیں۔

اسلام آباد میں ایک اور فور سٹار ہوٹل کے اہلکار نے بتایا کہ ایک شخص کا قرنطینہ میں سات روز تک رہنے کا خرچہ کم از کم چالیس ہزار روپے ہو گا۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ اس میں سٹنڈرڈ کمرے کا کرایہ اور کھانے پینے کا خرچہ شامل ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی ڈیلکس یا ایگزیکٹیو کمرے میں رہنا چاہے تو اس کا کرایہ یقیناً زیادہ ہو گا۔

تاہم ہوٹلوں میں قائم قرنطینہ مراکز میں طبی عملے اور صحت سے متعلق اخراجات حکومت پاکستان ادا کرے گی۔

سہولیات

فور سٹار ہوٹل کے اہلکار کا کہنا تھا کہ سٹنڈرڈ کمرے میں ڈبل بیڈ اور منسلک باتھ روم ہوتا ہے اور ٹی وی اور اے سی بھی موجود ہوتا ہے۔ جبکہ ڈیلکس کمرہ بڑا ہوتا ہے اور اس میں استری کے علاوہ ریفریجیریٹر اور کافی بنانے والی الیکٹرک کیتلی ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ ایگزیکٹیو روم میں بیڈ روم اور لاونج کے حصے الگ الگ ہوتے ہیں جبکہ اس میں منی بار کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے۔

زیادہ مہنگے کمروں میں ہوٹل انتظامیہ مہمان کے مطالبہ پر وی سی آر، سی ڈی پلئیر اور دوسری سہولتیں بھی فراہم کر سکتی ہے۔

تاہم سی اے اے کے جاری کردہ ایس او پیز میں واضح کیا گیا ہے کہ ادائیگی پر مہیا کی جانے والی قرنطینہ کی سہولت کا انحصار جگہ یا کمروں کی دستیابی پر ہو گا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان