عظیم بحران کے لیے تیار رہیں

سونے پر سہاگہ کاروبار کھولنے کے اعلانات ہو گئے ہیں۔۔۔ فیکٹریاں اور انڈسٹریاں کرونا وائرس کا سب سے بڑا 'بریڈنگ گراؤنڈ' بن جائیں گی اور تب پچھتاوے کچھ نہ ہووے گا۔

غریب کی جان کی پرواہ کسے ہے۔ نہ مذہب کے ٹھیکیدار نہ سرمایہ دار، بیوپار کو غریب کی قبر سے سروکار۔ دونوں نے مجبوری میں پسے انسان کو اپنے اپنے مفادات کے کولہو پر بیل کی طرح جو ستا رکھا ہے۔ (فائل تصویر: اے ایف پی)

15 فروری سے 31 مارچ تک یعنی ڈیڑھ ماہ یا 45 دنوں میں پاکستان میں کرونا (کورونا) وائرس کیسز کی تعداد دوہزار تک کے اندر محدود رہی مگر 31 مارچ سے 15 اپریل تک صرف 15 دنوں یعنی دو ہفتوں کے اندر اندر یہ تعداد آٹھ ہزار تک چھونے لگی ہے، یعنی محض 15 دنوں کے اندر چھ ہزار کیسز کا مزید اضافہ ہوا ہے۔

حکومتی اعدادوشمار کے مطابق اب تک صرف ساڑھے 92 ہزار ٹیسٹ پورے ملک میں کیے گئے ہیں۔22 کروڑ کی آبادی میں صرف ساڑھے 92 ہزار ٹیسٹ قطعاً کوئی معنی نہیں رکھتے۔ یہ محض صفر اعشاریہ صفر چار دو کا تناسب بنتا ہے یا آپ یوں سمجھ لیجیے کہ پورے پاکستان میں فی الحال ایک شہر کی چند یونین کونسلز پر مبنی آبادی کے برابر ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔

سونے پر سہاگہ کاروبار کھولنے کے اعلانات ہو گئے ہیں۔ لوگوں کو فیکڑیوں، کام کی جگہوں پر واپس لایا جارہا ہے، وہ بھی ایسے حالات میں جب نہ تو آپ کے پاس ٹیسٹنگ پوری موجود ہے اور نہ ہی کوئی طریقہ کار کہ ایس او پیز پر عمل کیسے کروائیں گے ۔کیا ہر فیکٹری، ہر انڈسٹری پر آپ پولیس کے ہرکارے کھڑے کروادیں گے کہ وہ چیک کریں کہ آیا ایس او پیز پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں۔

غریب مزدور طبقے کا درد مندی سے خیال بہت اچھی بات ہے لیکن آخر ہم کیوں اپنے ہی ہاتھوں سے پاکستان کو ایک عظیم بحران میں دھکیلنے کے درپے ہیں؟ یہ محض خام خیالی ہے کہ پاکستان تاحال خوفناک صورت حال سے محفوظ ہے ۔اصل وجہ صرف یہ ہے کہ آپ کو علم ہی نہیں کہ درحقیقت آپ کے ملک میں اصل کیسز کتنے ہیں کیونکہ ہم درکار ٹیسٹنگ کر ہی نہیں رہے۔

ٹیسٹنگ کے بغیر محض مفروضوں پر مبنی سرکاری بابوؤں کی ڈنگ ٹپاؤ نوکری بچاؤ بریفنگز پر پالیسی تشکیل دے دی گئی اور ملک کو خوفناک بحران میں دھکیلنے کی ابتدا کردی گئی ۔پاکستان کو تو فوری طور پر ضرورت ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر کم از کم 50 ہزار ٹیسٹ کیے جائیں تب جا کر کم از کم ایک مہینے میں ہمیں اندازہ ہو گا کہ ملک میں وائرس کا ٹرینڈ اور سکوپ کیا ہے۔

یہاں تو ابھی تک ٹیسٹ کیے نہیں اور اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف لوگوں کو واپس روزگار کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ فیکٹریاں اور انڈسٹریاں کرونا وائرس کا سب سے بڑا 'بریڈنگ گراؤنڈ' بن جائیں گی اور تب پچھتاوے کچھ نہ ہووے گا۔ پچھلے دو ہفتوں میں پاکستان میں ٹیسٹنگ کی ذرا سی سہولت بڑھا دی گئی تو ایک ایک دن میں ریکارڈ توڑ مثبت کیسز اور اموات سامنے آمنے لگیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈر پئے خوف کھائیے اس ن سے جب ہم نے کم از کم 25 ہزار یا 50 ہزار تک روزانہ ٹیسٹنگ کی سہولت کو بڑھا لیا ۔آخر ہم کیسے یقینی بنائیں گے کہ غریب مزدور طبقہ کام کی جگہ پر ایک دوسرے سے ہاتھ نہیں ملائےگا، بغل گیر نہیں ہوگا، ماسک دستانے یا سینیٹائزر کی سہولت تک پہنچ رکھے گا یا جن آلات پر وہ کام کر رہا ہے وہ وائرس زدہ نہیں ہوں گے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو ایسی جگہوں پر ایسی کنڈیشنز میں کام کرتا ہے جہاں حفظان صحت کے بنیادی اصولوں کی دستیابی محض خام خیالی ہے۔

واضح نظر آتا ہے کہ پالیسی سازی میں واضح دین کا فقدان ہے۔ ابھی تو پاکستان میں عوام نے ایک دن کے لیے بھی صحیح طور پر خود کو لاک ڈاؤن نہیں کیا اور یہاں ملک کی آبادی کے بڑے طبقے کو باہر نکلنے اور میل جول کی آزادی دے دی گئی ہے۔ تاجروں کو پیسے کی ہوس ہے، منبر و محراب والوں کو مذہبی اجارہ داری کی حرص، ہر دوطبقہ اپنی اجارہ داری اور کمائی سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں اور حیلوں بہانوں سے ریاست کو یرغمال بنائے ہوئے ہے۔ غریب کی جان کی پرواہ کسے ہے۔ نہ مذہب کے ٹھیکیدار نہ سرمایہ دار، بیوپار کو غریب کی قبر سے سروکار۔ دونوں نے مجبوری میں پسے انسان کو اپنے اپنے مفادات کے کولہو پر بیل کی طرح جو ستا رکھا ہے۔

توکل اللہ موت بر حق کا نعرہ لگا کر مساجد آباد کرتے کئی ایک باریش تاجر حضرات آپ کو بہ کثرت نظر آئیں گے لیکن انہیں اگلے دن کے رزق سے متعلق توکل کرتے کبھی نہ پائیں گے، لہذا دکانیں اور کاروبار کھولنا لازم ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کیسز سامنے آنے کے پہلے ہفتے میں جامع اور فوری حکمت عملی بنا کر ملک بھر میں یکساں اور کڑا لاک ڈاؤن کیا جاتا اور فوری ٹیسٹنگ کی استعداد کار کو بڑھایا جاتا۔  فروری تا مئی جون پاکستان کے پاس بہترین وقت ہوتا کہ نہ صرف وائرس پر قابو پا لیا جاتا بلکہ اس دوران مرحلہ وار کاروبار زندگی کی طرف واپسی کا عمل بھی شروع کیا جاسکتا تھا۔

یورپ کے تمام بڑے ممالک نے باوجود ابتدائی غلطیوں کے، اسی فارمولے پر عمل کیا۔ اب اگر اٹلی، جرمنی، سپین، ناروے جیسے ممالک لاک ڈاؤن میں بتدریج نرمی کر رہے ہیں تو وہ بھی کڑے کرفیو اور جارحانہ ٹیسٹنگ کے بعد۔لیکن تاحال عالمی ادارہ صحت یورپ اور امریکہ تک کو تنبیہ کر رہا ہے کہ ان حالات میں کاروبار زندگی کی طرف واپس لوٹنا انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔

دوسری طرف چین میں کرونا وائرس کی دوسری لہر کا آغاز ہونے کا خطرہ بھی زور پکڑتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستان میں کاروبار شروع کرنے کی اجازت دینا خودکشی کے مترادف ہے ۔لگتا ہے کہ پالیسی سازوں نے کرونا سے موت یا بھوک سے موت میں اول الذکر کو ترجیح دی ہے کیونکہ نہ تو کرونا سے نمٹنے کی پالیسی بنانے کی ان میں صلاحیت ہے نہ بھوک سے موت سے نمٹنے کی ہمت ۔اپریل، مئی اور جون پاکستان کے لیے انتہائی اہم اور سنگین مہینے ہیں۔ اس عرصے میں کنٹرول کرلیں اور ٹیسٹنگ کو بڑھالیں تو ابھی بھی وقت ہے وگرنہ عظیم اور خوفناک بحران کے لیے تیار رہیں اور پھر شاید دوسال تک سنبھلنا مشکل ہو جائے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ