پہلے والد اور بھائی قتل ہوئے، پھر روزگار گیا اور اب خود عارف وزیر

کیا پاکستان کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں کوئی محفوظ بھی ہے؟ گذشتہ چند دنوں میں پی ٹی ایم کے سرکردہ رہنما عارف وزیر سمیت چار افراد کوگولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

والد اور بھائی کے قتل کے بعد عارف وزیر نے تعلیم چھوڑ کر گھر کی ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں(تصویر بشکریہ مشال ریڈیو)

پاکستان کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں کیا کوئی محفوظ ہے؟ گذشتہ چند دنوں میں پختون تحفظ موومنٹ کے سرکردہ رہنما عارف وزیر سمیت چار افراد کوگولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

وزیرستان میں ایک بار پھر نامعلوم افراد اسلحہ اُٹھا کر نوجوانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ساتھ ہی پورے علاقے میں کالے شیشوں والی گاڑیوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے، جو نامعلوم افراد ٹارگٹ کلنگ کے دوران استعمال کرتے آرہے ہیں۔

ان حالات کی وجہ سے علاقے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور کسی کو بھی اپنی زندگی محفوط نظر نہیں آ رہی ہے۔

عارف وزیر کے واقعے سے چند دن پہلے شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل کے علاقے دیگان میں کالے شیشوں والی ایک نان کسٹم پیڈ گاڑی سے اسد جان کو اس وقت فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا جب وہ بازار سے گھر جارہے تھے۔

اسد جان کی کوئی ذاتی دُشمنی نہیں تھی البتہ وہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے تھے۔

اس کے بعد تحصیل میرعلی کے علاقے حسو خیل میں محمد دار علی اس وقت ہوائی فائرنگ کا نشانے بنے جب حسو خیل سے گزرنے والے سکیورٹی فورسز کے ایک قافلے کے سامنے بارودی سرنگ کا دھماکہ ہوا۔

محمد دار علی کی ہلاکت کے بعد علاقے کے لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا مگر مقامی انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز کی طرف سے مالی امداد ملنے کے بعد احتجاجی مظاہرے ختم ہو گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تیس اپریل کو شمالی وزیرستان کی تحصیل سپین وام میں 35 سالہ بخم اللہ خان کو سکیورٹی فورسز کی وردی میں ملبوس مُسلح افراد نے گاؤں سے اٹھایا اور بعد میں ان کی تشدد زدہ لاش ملی۔

مقامی لوگوں کے مطابق سکیورٹی فورسز کے اہلکار نے مبینہ طور پر اطلاع دی کہ ان کی لاش پڑی ہے کوئی جا کر اٹھا لے۔

کل (جمعے) کو رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے چچا ذاد بھائی اور پختون تحفظ مومنٹ کے سرکردہ رہنما عارف وزیر کو وانا میں گھر کے سامنے نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شدید زخمی کر دیا۔

انہیں علاج کے لیے اسلام آباد کے پمز ہسپتال منتقل کر دیا گیا لیکن جانبر نہ ہوسکے۔

عارف وزیر کا تعلق اُس بدقسمت خاندان سے ہے جس کے 12 سے زیادہ افراد کو وزیرستان میں جاری دہشت گردی میں ہلاک کیا گیا۔ 2005 میں وانا کے مقام پر نامعلوم افراد نے ان کے خاندان کے سات افراد کو اس وقت فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا تھا جب وہ بازار سے گھر کی طرف جا رہے تھے۔

ان میں عارف وزیر کے والد سعد اللہ خان اور ایک بھائی ابراہیم خان شامل تھے۔

سعد اللہ خان کے چار بیٹے تھے جن میں سے ابراہیم خان اور عارف وزیر دونوں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جب کہ دوسرے بیٹوں اسماعیل خان اور سراج کی حفاظت کے لیے دُعا ہی کی جا سکتی ہے۔

عارف وزیر والد اور بھائی کے ہلاکت کے بعد ذاتی طور پر سخت آزمائشوں اور اذیت کا شکار ہو گئے۔ وہ وانا سکاؤٹس سکول میں زیر تعلیم تھے جب ان والد اور بھائی کو قتل کیا گیا۔

اس واقعے کے بعد سے وہ تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکے اور نویں جماعت میں سکول چھوڑ کر گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنے پر مجبور ہو گئے۔

ایک طرف عارف وزیر کے سرپر گھر کے تمام ذمہ داریاں تھیں تو دوسری طرف جس مارکیٹ سے ان کے گھر کا چولہا جل رہا تھا اسے بھی نہیں بخشا گیا۔

عارف وزیر کا المحب مارکیٹ کے ملکیت میں 20 واں حصہ تھا جس سے وہ گھر کے اخراجات پوری کرتے تھے۔ 2016 میں ان کی مارکیٹ میں دھماکہ ہوا تھا جس میں سکیورٹی فورسز کا ایک افسر ہلاک ہوا گیا تھا۔

حکومت نے ایف سی آر میں علاقائی ذمہ داری کے تحت مارکیٹ کومنہدم کردیا جس کے بعد سے ان کے گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑ گیا۔ عارف وزیر ان تمام حالت کو دیکھتے ہوئے حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک میں حصہ لینے پر مجبور ہوگئے۔

عارف وزیر اب اس دُنیا میں نہیں رہے۔ ان کے پسماندگان میں ایک بیوہ تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان