لاک ڈاؤن کے باوجود لمز یونیورسٹی کا فیسوں میں ’غیر معمولی‘ اضافہ

لمز کے وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ فیسیں فوری نہیں بڑھائی گئیں بلکہ یہ فیصلہ کرونا وائرس کی وبا پھیلنے سے پہلے کیا گیا تھا، صوبائی وزیر راجہ یاسر ہمایوں کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس نجی یونیورسٹیز کو فیسیں بڑھانے سے روکنے کا اختیار نہیں۔

جن یونیورسٹیوں کی جانب سے فیسیں بڑھائے جانے کی اطلاعات ہیں ان میں لاہور کی معروف یونیورسٹی لمز بھی شامل ہے (لمز یونیورسٹی/ فیس بک)

پاکستان میں بڑی نجی یونیورسٹیز کی فیسیں پہلے ہی بہت زیادہ ہیں اور لوگ جیسے تیسے کر کے ادا بھی کرتے آ ہی رہے ہیں لیکن اس وقت ان والدین کے لیے فیسوں میں اضافہ اس لیے پریشان کن ہے کیوں کہ ان کے اپنی نوکریاں یا کاروبار وغیرہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔

جن یونیورسٹیوں کی جانب سے فیسیں بڑھائے جانے کی اطلاعات ہیں ان میں لاہور کی معروف یونیورسٹی لمز بھی شامل ہے۔

تاہم لمز کے وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ فیسیں فوری نہیں بڑھائی گئیں بلکہ یہ فیصلہ کرونا وائرس کی وبا پھیلنے سے بھی پہلے کیا گیا تھا اور یہ اضافہ ہر سال معمول کے مطابق کیا گیا ہے جبکہ ڈالر کی قدر میں اضافہ سے اخراجات زیادہ ہوئے ہیں۔

دوسری طرف صوبائی وزیر برائے ہائیر ایجوکیشن راجہ یاسر ہمایوں کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس نجی یونیورسٹیز کو فیسیں بڑھانے سے روکنے کا اختیار نہیں کیونکہ داخلہ لینے والے طلبہ کو اندازہ ہوتا ہے کہ کونسی یونیورسٹی کی فیسیں کتنی ہیں۔ ’ہم صرف سرکاری یونیورسٹیز میں فیسوں سے متعلق جواب دہ ہیں۔‘

فیسوں میں اضافہ کیوں کیا گیا؟

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کے وائس چانسلر ڈاکٹر ارشد احمد کے مطابق رواں سال یعنی 2020 کے لیے لمز نے فیس میں اضافے کا فیصلہ کووڈ-19 کی وبا پھیلنے سے پہلے کیا گیا تھا، جو مکمل طور پر سابقہ ​​سالوں کے مطابق ہے اور افراط زر، توانائی کے اخراجات اور کرنسی کی قدر میں کمی میں غیر معمولی اضافے کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے۔

ان کے مطابق: ’2020 کے لیے طے شدہ اضافہ 13 فیصد تھا جس کی نگرانی ہم اگلے فیس کارڈ کے تعین میں کریں گے۔ اس سے قبل 12 سے 20 کریڈٹ گھنٹے کے دوران طلبہ کے لیے فی سیمسٹر فیس لی جا رہی تھی۔ اب اس فیس کا حساب کتاب فی کریڈٹ آور کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جس سے کچھ کے لیے سیمسٹر کی فیس میں اضافہ ہوگا اور دوسروں کے لیے اس میں کمی واقع ہوگی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ اہم نکتہ یہ ہے کہ گریجویشن کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کل فیس ہر کریڈٹ آور کی بنیاد پر شفٹ کے نتیجے میں تبدیل نہیں ہوتی ہے۔ اس تبدیلی کی ایک وجہ طلبہ کو زیادہ بوجھ لینے سے روکنا ہے جو ان کی تعلیم پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ 'غیر منافع بخش یونیورسٹی کی حیثیت سے ڈونرز، ٹرسٹیوں وغیرہ کے تحائف تین طلبہ میں سے ایک طالب علم کو سبسڈی دینے میں معاون ہیں۔'

تاہم لمز یونیورسٹی کے طلبہ کے مطابق انتظامیہ نے فیسوں میں 41 فیصد اضافہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جس سیمسٹر کی پہلے تین لاکھ 80 ہزار فی طالب علم فیس تھی اب اسے چار لاکھ 82 ہزار فیس ادا کرنا پڑے گا۔ اس فیصلہ سے ایک لاکھ دو ہزار روپے سیمسٹر کی فیس میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جو ناقابل برداشت ہے۔'

یونیورسٹیوں کی فیسیں اور طلبہ کا ردعمل

پروگریسو سٹوڈنٹس الائنس کے رہنما عمار علی جان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لمز کی انتظامیہ کی جانب سے اس وقت فیسیں بڑھانا ’بے حسی‘ کو ظاہر کرتا ہے اگر فیس بڑھانے کا فیصلہ پہلے کیا گیا تھا تو کرونا وائرس کے اس دور میں تو ریاستوں کے کئی فیصلے رک گئے اور منصوبے بند ہوگئے۔ ایسے میں یہ کوئی قابل قبول وضاحت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلے ہی لمز کی فی سیمسٹر فیس تین لاکھ 80 ہزار تھی جبکہ فارمین کریسچن کالج یونیورسٹی (ایف سی سی یو) کی سیمسٹر فیس ایک لاکھ تیس ہزار، آئی بی اے کراچی کی دو لاکھ 37 ہزار جبکہ ایل ایس ای طلبہ سے ایک لاکھ 70 ہزار سیمسٹر فیس وصول کر رہے ہیں۔

’لمز کیونکہ بڑی یونیورسٹی ہے ان کی جانب سے فیسوں میں اضافے کے بعد دوسری یونیورسٹیاں بھی اضافہ کریں گی۔‘

عمار نے لمز انتظامیہ سے فیسوں میں اضافے کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدام طلبہ کا مستقبل متاثر کرنے کے ساتھ مالی مشکلات کا شکار والدین کے لیے بھی تکلیف دہ ہیں۔

لمز کے ایک طالب علم غلام مصطفیٰ نے اپنے سوشل میڈیا پیغام میں کہا کہ ایک کریڈٹ گھنٹے کی قیمت اب 24 ہزار ایک سو روپے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ چار کریڈٹ گھنٹوں کا ایک کورس: 96 ہزار 400 ہے اور اگر ایک سیمسٹر میں 28 لیکچرز ہیں اس کا مطلب ہے 3442 فی لیکچر۔

’فرض کریں کلاس دو گھنٹے کی ہے۔ لمز کی قیمت 28.7 فی منٹ ہے جبکہ جاز کی قیمت ایک اعشاریہ دو فی منٹ ہے۔

پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے آگے حکومت بھی بے بس؟

ہائیر ایجوکیشن کے صوبائی وزیر راجہ یاسر ہمائیوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لمز سمیت تمام بڑی نجی یونیورسٹیاں خود مختار ہیں۔

’ان یونیورسٹیوں کی جانب سے فیسوں میں اضافے یا کمی پر حکومت مداخلت نہیں کر سکتی۔‘

راجہ یاسر ہمائیوں کا کہنا تھا: ’ان تعلیمی اداروں میں تمام والدین فیسوں کے اخراجات پہلے دن سے معلوم ہونے پر یہاں بچوں کو داخل کراتے ہیں۔ جو اخراجات برداشت کر سکتا ہے وہی داخلہ لیتا ہے۔ اس لیے پرائیویٹ یونیورسٹیوں کو ایسے فیصلوں پر روکا نہیں جاسکتا اور دنیا بھر میں پرائیویٹ تعلیم مہنگی ہے لیکن ان کے معیار کو دیکھتے ہوئے ہی وہاں داخلے ہوتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ہم صرف سرکاری یونیورسٹیوں کی فیسوں میں ردوبدل کے جواب دہ ہیں۔ ان کے خیال میں جیسا معیار ہوگا ویسے ہی خرچ بھی برداشت کرنا پڑے گا۔

’حکومت اس معاملہ میں قانونی طور پر کچھ نہیں کرسکتی۔ لہذا طلبہ اور ان کے والدین خود ہی ان تعلیمی اداروں کی انتظامیہ سے احتجاج کا حق ضرور رکھتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس