وکیلوں کو بینکوں سے قرضے کیوں نہیں ملتے؟

قرضہ جات کے حوالے سے تمام نجی بینک اپنے قوانین بناتے ہیں لیکن بنیادی گائیڈ لائنز سٹیٹ بینک کی ہی ہوتی ہے۔

دو سال قبل ایم کیو ایم کے بیرسٹر سیف نے خزانہ کمیٹی میں یہ معاملہ اٹھایا تھا کہ بینکوں کی جانب سے قرضہ جات اور مختلف سکیموں میں امتیازی رویہ رکھا جاتا ہے اور وکلا سمیت کچھ شعبوں کو قرضے نہیں دیے جاتے۔ (تصویر: اے ایف پی)

دو روز قبل ڈسٹرکٹ بار اسلام آباد اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکلا رہنماؤں نے سپریم کورٹ میں استدعا کی کہ لاک ڈاؤن کے سبب متعدد وکلا کے معاشی حالات بہتر نہیں ہیں اور بینک وکیلوں کو قرضہ نہیں دیتے، لہذا انہیں وکلا کو قرضہ دینے کی ہدایت کی جائے۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس سجاد علی شاہ نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ 'وکلا سے امتیازی سلوک کی بات آپ ہمیں نہ بتائیں۔ وکلا سے جان چھڑانی مشکل ہو جاتی ہے۔ لوگ ان سے ڈرتے ہیں، ہم نے اس ساری صورت حال کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔'

اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار سے رابطہ کیا کہ ان کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں کیا استدعا کی گئی تھی، جس پر انہوں نے بتایا کہ 'درحقیقت وفاقی بجٹ میں وزارت قانون کے لیے جو بجٹ مختص ہوتا ہے، اس میں سے کچھ رقم ڈسٹرکٹ بار اور اسلام آباد بار کے لیے بھی ہوتی ہے، جس سے وہ بار کے انتظامی معاملات چلاتے ہیں اور اگر کسی وکیل کو ضرورت ہو تو اس فنڈ سے رقم دی جاتی ہے، لیکن 20-2019 کے بجٹ میں جو رقم مختص ہوئی وہ ابھی تک نہیں ملی اور کرونا وائرس کی وجہ سے عدالتیں اتنی فعال نہیں ہیں، وکیلوں کو کیسز نہیں مل رہے تو اب ان ساری وجوہات کی بنا پر برے معاشی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔'

انہوں نے کہا: 'اس مسئلے کے تدارک کے لیے بینکوں سے چھوٹے قرضوں کا حصول یا کریڈٹ کارڈ ایک حل ہے لیکن بینک وکیلوں کو قرضے نہیں دیتے، جس کی وجہ سے عدالت سے استدعا کی گئی کہ بینکوں کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وکلا کے مالی حالات کی بہتری کے لیے قرضے دیے جائیں۔'

اسلام آباد بار کے صدر نے کہا کہ 'وکیلوں کو تو کرائے کا گھر بھی نہیں ملتا، اگر ملے بھی تو بہت مشکل سے ملتا ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

واضح رہے کہ دو سال قبل ایم کیو ایم کے بیرسٹر سیف نے خزانہ کمیٹی میں یہ معاملہ اٹھایا تھا کہ بینکوں کی جانب سے قرضہ جات اور مختلف سکیموں میں امتیازی رویہ رکھا جاتا ہے اور وکلا سمیت کچھ شعبوں کو قرضے نہیں دیے جاتے۔

بیرسٹر سیف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'ماضی میں یقیناً کچھ واقعات ایسے ہوئے ہیں جن میں وکلا نے کریڈٹ کارڈز لیے اور لمٹ استعمال کرنے کے بعد اکاؤنٹ بند کر دیے اور پیسے واپس نہیں کیے لیکن اس میں بھی بینک کی غلطی ہے کہ انہوں نے بغیر تصدیق کے ہر کسی کو قرضہ کیوں دیا؟'

انہوں نے کہا کہ 'کچھ عناصر کی وجہ سے ساری وکلا برادری پر الزام لگا کر بلیک لسٹ کرنا کہ انہیں قرضے دینے ہی نہیں، یہ مناسب نہیں ہے۔'

بیرسٹر سیف نے مزید بتایا کہ دو سال گزر چکے ہیں، یہ معاملہ اب بھی خزانہ کمیٹی میں زیر غور ہے۔ گذشتہ اجلاس میں کمیٹی چئیرمین نے سٹیٹ بینک سے وضاحت طلب کی تھی کہ کس پالیسی کے تحت وکلا کو قرضے نہیں دیے جاتے؟

واضح رہے کہ قرضہ جات کے حوالے سے تمام نجی بینک اپنے قوانین بناتے ہیں لیکن بنیادی گائیڈ لائنز سٹیٹ بینک کی ہی ہوتی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر سٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ 'سٹیٹ بینک کی جانب سے کسی بھی بینک کو قرضہ جات جاری کرنے کے لیے کسی مخصوص شعبے کے حوالے سے امتیازی رویہ رکھنے کی ہدایت نہیں ہے۔'

دوسری جانب ایک نجی بینک کے عہدیدار نے بتایا کہ 'کریڈٹ کارڈ یا قرضے کے لیے بینکوں کی شرائط گارنٹی اور سکیورٹی کلیئرنس ہوتی ہے۔ جو بھی یہ شرائط پوری کرلیتا ہے اس کو کریڈٹ کارڈ/ قرضہ مل جاتا ہے۔ اگر کوئی وکیل ان شرائط پر پورا نہیں اترتا تو یہ کہناغلط ہو گا کہ وکیل ہونے کی وجہ سے قرضہ نہیں دیا گیا۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان