کوئی امید بر نہیں آتی

عمران خان نے، جنہیں پہلے دن ہی قومی اسمبلی کے اجلاس میں آکر قیادتی کردار ادا کرنا چاہیے تھا، غائب رہ کر یہ ثابت کیا کہ جس ایوان نے انہیں رسمی طور پر وزیر اعظم بنایا وہ اسے کتنی اہمیت دیتے ہیں۔

بائیس کروڑ کی آبادی میں ابھی تک تین لاکھ ٹیسٹ ہو سکے ہیں۔ اسی وجہ سے مریضوں اور ہلاکتوں کی جو تعداد بتائی جا رہی ہے وہ حقائق سے خاصی مختلف ہے(اے ایف پی)

کرونا (کورونا) سیلاب کے بند کھول دیے گئے ہیں اور اس کی راہ میں نام نہاد سپیڈ بریکر توڑ دیے گئے ہیں۔ ملک کے شہر اور دیہات کرونا نگر میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ معیشت تباہی کی طرف جا رہی ہے۔

22 ماہ قبل لائی گئی قومی اسمبلی اپنا قائدانہ کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ حکومت حزب اقتدار کا کردار ادا کرنے کی بجائے حزب اختلاف کے حزب اختلاف بننے کی کوشش کر رہی ہے۔ وفاقی آئینی اداروں کو مضبوط کرنے کی بجائے کمزور کیا جا رہا ہے۔ حزب اختلاف منقسم ہے۔ میڈیا ماؤف ہے۔ قوم کی اجتماعی دانش مفلوج ہے۔ مقتدر حلقے اپنے بچھائے ہوئے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پاکستان بند گلی میں ہے۔

پچھلے ہفتے جب لاک ڈاؤن ختم کیے جا رہے تھے، ہم نے خبردار کیا تھا اور بتایا تھا کہ اگلے ہفتے اس کے نتائج ہمارے سامنے ہوں گے۔ اب دیکھ لیجیے۔ پچھلے ہفتے جمعے کی سہ پہر کرونا مریضوں کی تعداد 27 ہزار تھی اور کل جمعے کی سہ پہر تک اس تعداد میں 10 ہزار سے زائد مریضوں کا اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ تعداد کل شام تک ,37,200 کے قریب پہنچ چکی تھی۔ صرف اس ایک ہفتے میں 200 سے زائد پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔

یہ رفتار کس تیزی سے بڑھ رہی ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ 18 مارچ کو ایک، چھ اپریل کو 50، 14 اپریل کو 100، 21 اپریل کو 200، یکم مئی کو 400 اور آٹھ مئی کو 600 سے زائد ہلاکتیں ہو چکی تھیں۔ یہ تعداد اس کے باوجود ہے کہ جس بڑے پیمانے پر ٹیسٹوں کا وعدہ کیا گیا تھا ہم ابھی اس سے کوسوں دور ہیں۔

کل تک ہم پورے ملک میں روزانہ ٹیسٹوں کی تعداد 13 ہزار یومیہ سے بڑھا نہیں سکے تھے جبکہ 50 ہزار یومیہ ٹیسٹوں کی نوید سنائی گئی تھی۔ 22 کروڑ کی آبادی میں ابھی تک ہم تین لاکھ کے قریب ٹیسٹ کر سکے ہیں۔ اسی وجہ سے مریضوں اور ہلاکتوں کی جو تعداد بتائی جا رہی ہے وہ حقائق سے خاصی مختلف ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کرونا مریضوں اور ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد لازمی طور پر نتیجہ ہے شروع میں حکومتی غیر ذمہ داری کا اور بعد میں لاک ڈاؤن سے متعلق متضاد اور منفی رویوں کا۔ ان منفی رویوں کا منبہ عمران خان خود ہیں جو کہ پہلے دن سے کرونا سے متعلق وہی غیر سائنسی رویہ اپنائے ہوئے ہیں جو امریکی صدر ٹرمپ، برطانوی، برازیل، اٹلی اور سپین کے سربراہوں نے اپنائے تھے۔

یہ تمام ممالک تو اس کے نتائج بڑی حد تک بھگت چکے ہیں اور بھگت رہے ہیں۔ پاکستان میں کیونکہ یہ مرض دیر سے داخل ہوا اس لیے اس کے اثرات اب آنا شروع ہوئے ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین خصوصی طور پر پاکستانی ماہرین جو ملک کے اندر موجود ہیں اور جو ملک سے باہر ہیں، سب موجودہ حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ وہ غلطیاں نہ کریں جو ان ممالک نے کیں کیونکہ پاکستان کا نظامِ صحت ان ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت پسماندہ ہے اور معیشت کرونا کے آنے سے پہلے ہی بہت تباہ حال ہے۔ لیکن عمران خان جس کسی کے بھی مشوروں پر چل رہے ہیں، اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

کرونا سے متعلق عمران سرکار کے پھیلائے ہوئے بہت سے مغالطے غلط ٹھہرائے جا چکے ہیں۔ شروع میں عمران خان نے کہا کہ یہ بیماری معمولی نزلہ زکام کی طرح ہے، صرف دو فیصد اس کا شکار ہو سکتے ہیں، صرف بوڑھے اور بیمار لوگوں کو خطرہ ہے، ہم لوگوں کا مدافعتی نظام ان ملکوں سے مضبوط ہے، گرمیاں آتے ہی یہ بیماری ہمارے ہاں سے چلی جائے گی، ہمارے ہاں نوجوان آبادی زیادہ ہے اس لیے ہمیں زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے اور یہ کہ ہم لوگوں نے کیونکہ چیچک اور تپ دق کے ٹیکے لگوائے ہوئے ہیں اس لیے ہمارا مدافعتی نظام کرونا کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

یہ تمام واہمے ایک ایک کر کے غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ لاک ڈاؤن، بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ، جسمانی دوری، بہتر علاج معالجے اور عوامی سطح پر سخت پرہیزی اقدامات جن میں چہرے پر ماسک اور دستانوں کے استعمال کے ذریعے اس مرض کو مکمل طور اگر ختم نہیں کیا جا سکتا تو کم از کم بڑے پیمانے پر روک تھام کی جا سکتی ہے۔

جہاں جہاں کامیابی ملی ہے وہاں ان تمام چیزوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس کے بعد ہی ان ممالک میں نقطۂ عروج پہنچنے کے بعد جب کرونا ڈھلان کی طرف گیا تو وہاں پر لاک ڈاؤن میں نرمی لائی گئی ہے۔ 

پاکستان میں البتہ الٹا نظام چل رہا ہے۔ ایک تو شروع میں بے احتیاطی کی گئی اور اب جب پاکستان تیزی سے کرونا کے نقطہ عروج کی طرف بڑھ رہا ہے، بجائے سخت اقدامات کے، پورے ملک کو کھولا جا رہا ہے۔

پچھلے ہفتے زمینی اور ہوائی ٹریفک کے تمام ملک کو کھولا گیا اور کل قومی رابطہ کمیٹی کا اجلاس بلائے بغیر، زمینی اور ہوائی ٹریفک اور آٹوموبائل انڈسٹری کے ساتھ ساتھ شاپنگ پلازے بھی کھولنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ فیصلہ قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بغیر کیا گیا ہے اس لیے صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ ، آزاد کشمیر کے وزیر اعظم اور گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ کی رضامندی کے بغیر ہوا۔

صوبہ سندھ کی حکومت نے جمعے کی شام زمینی ٹرانسپورٹ سے متعلق فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ اس طرح کرونا پالیسی پر ایک اور دراڑ سامنے آ گئی ہے۔ کل عمران خان نے ایک بار پھر وزرا اور مشیروں کے ساتھ مل کر ایک بار پھر ’ظالم‘ لاک ڈاؤن کو تختہ مشق بنایا اور نئے اقدامات کا دفاع کیا۔

جو بات اب واضح ہو چکی ہے وہ یہ کہ عمران سرکار اس ملک کو سبک رفتار ’ہرڈ امیونٹی‘ یا تیز تراجتماعی مدافعت کے تصور کی طرف لے جا رہی ہے, جس کا مقصد یہ ہے کی تیزی سے عوام کی اکثریت کو کرونا سے متاثر کیا جائے تاکہ لوگ جلدی سے اندرونی مدافعت سے اسے شکست دیں۔

اس عمل میں جتنے لوگ مرتے ہیں وہ مریں کیونکہ ان کے بقول تباہ حال معیشت کو تباہ نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ ہمارے پاس اس کے خلاف ویکسین موجود نہیں۔ مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا اور وفاقی وزیر اسد عمر کئی بار یہ بات برملا کہہ چکے ہیں۔

رہی سہی کسر عمران خان نے جمعے کو اپنی تقریر میں پوری کر دی جس میں انہوں نے فرمایا کہ ہمیں کرونا کے ساتھ زندہ رہنا سیکھنا ہے۔ عمران خان نے، لاک ڈاؤن کھولنے کے لیے جن احتیاطی تدابیر کی شرائط عائد کی گئی تھیں، ان پر عمل در آمد کے لیے سختی کی مخالفت کی۔

لوگ پہلے ہی ان احتیاطی تدابیر کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں، اب جبکہ وزیر اعظم نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں تو اس کے بعد پاکستان کے حال مست لوگوں نے کیا کرنا ہے، اس کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جمعے کو ہی وفاقی وزیر اسد عمر نے وزیر اعظم عمران خان کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا دیے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا اب وزیر اعظم عمران خان کے بیانیے پر چل پڑی ہے۔ دنیا کس طرح عمران خان کے نقش قدم پر چل پڑی ہے وہ صرف اسد عمر اور ان کی جماعت کو ہی نظر آتا ہے۔

اس سے دو دن پہلے ایک اور وفاقی وزیر مراد سعید نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا تھا کہ نیویارک شہر کے گورنر پاکستان کے سمارٹ لاک ڈاؤن جیسے اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں کسی نے نہیں بتایا کہ امریکہ میں شہر کا نہیں بلکہ ریاست کا گورنر ہوتا ہے اور نیویارک شہر بھی ہے اور ریاست بھی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس دعوے کی بھی کوئی بنیاد نہیں۔

ابھی 18ویں ترمیم سے متعلق تنازع چل ہی رہا تھا کہ منگل کو صدر عارف علوی نے دسویں قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت صدر اس کمیشن کی تشکیل کرتے ہیں لیکن اعلان کے ساتھ ہی یہ معاملہ متنازع ہو گیا۔ آئین کے تحت وزیر خزانہ اس کمیشن کی سربراہی کرتے ہیں۔

پی پی پی کے دور میں جب ساتواں قومی مالی کمیشن تشکیل دیا جا رہا تھا اس وقت شوکت ترین مشیر خزانہ تھے لیکن کیونکہ وہ اس کی سربراہی نہیں کر سکتے تھے اس لیے انہیں خصوصی طور پر سینیٹر بنانے کے بعد وزیر خزانہ بنایا گیا، اس کے بعد ہی وہ اس کمیشن کی سربراہی کر سکے۔

تاہم منگل کے حکم نامے میں صدر عارف علوی نے مشیر خزانہ کو وزیر خزانہ کی غیر موجودگی میں اس کمیشن کی سربراہی کا اختیار دے دیا ہے جس کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں۔

نہ صرف یہ کیا گیا بلکہ کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس میں درآمدی ڈیوٹی کو نکال دیا گیا، سکیورٹی، ریاستی کارپوریشنوں کے نقصانات، سابقہ فاٹا، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے امور بھی اس میں ڈال دیے گئے، جن کا اس آئینی شق میں سرے سے ذکر ہی موجود نہیں۔ بلوچستان سے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ جاوید جبار کو کس طرح بلوچستان کے نمائندے کے طور پر اس کمیشن میں رکھا گیا ہے۔

بلوچستان سے کچھ لوگوں نے تو اعلیٰ عدلیہ میں اسے چیلینج بھی کر دیا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی وزیر اعظم عمران خان کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے صدر کو ایڈوائس بھیج کر اس غیر آئینی قدم روکنے کا کہا ہے۔ اگر یہ معامل طول پکڑتا ہے تو اس سے ایک آئینی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچے۔

سوال یہ ہے کہ ایسے وقت جب ملک کو قومی یکجہتی کی ضرورت ہے تو متنازع طریقے سے یہ کمیشن کیوں تشکیل دیا گیا؟ اور وہ بھی آئینی تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کیوں کیا گیا؟

 انہی حالات میں ایک بار پھر حزب اختلاف کے رہنماؤں کے خلاف نیب کی نئی سرگرمیوں کی خبریں آ رہی ہیں جن میں شہباز شریف، نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی شامل ہیں۔ 

قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس جو حزب اختلاف کے دباؤ پر پیر کو بلایا گیا جمعے کو بھی جاری رہا لیکن وزیر اعظم دونوں ایوانوں سے جمعے کے روز تک غائب رہے۔ حکومتی بنچوں سے اتفاق رائے پیدا کرنے کی بجائے، مراد سعید، شاہ محمود قریشی، شفقت محمود اور اسد عمر کو حزب اختلاف کو آڑے ہاتھوں لینے کے لیے استعمال کیا گیا۔

عمران خان نے، جنہیں پہلے دن ہی اجلاس میں آکر قیادتی کردار ادا کرنا چاہیے تھا، غائب رہ کر یہ ثابت کیا کہ جس ایوان نے رسمی طور پر انہیں وزیر اعظم بنایا ہے اسے وہ کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ شہباز شریف، جو قائد حزب اختلاف ہیں، شریک نہ ہوئے حالانکہ انہوں نے اس کی طبی وجوہات بتائی ہیں۔ اکثر تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ وہ اس لیے غیر حاضر ہیں کہ وہ موجودہ حکومت کو ایوان کے اندر کوئی سخت مزاحمت نہیں دینا چاہتے۔

ن لیگ کے اندرونی اختلافات مستقبل میں کیا شکل اختیار کریں گے، ابھی کہنا مشکل ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ن لیگ ابھی بھی اس بیانیے پر قائم ہے کہ عمران سرکار کی ممکنہ تبدیلی کی صورت میں اقتدار کا حصہ نہ بنا جائے اور اس عمل کے لیے اگلے انتخابات کا انتظار کیا جائے۔ لیکن عمران سرکار کے اتحادیوں میں، جن میں گجرات کے چوہدری بھی شامل ہیں، خاصے بے چین نظر آتے ہیں۔ ن لیگ نے ان سے تعلقات بہتر کر لیے ہیں لیکن یہ معاملات اگلے انتخابات میں ہی کوئی رنگ دکھا سکتے ہیں۔

اس وقت سارا فوکس تیزی سے بگڑتی ہوئی معیشت، اگلا بجٹ اور کرونا کی امڈتی ہوئی آفت ہے جسے روکنے کے لیے کوئی حکمت عملی موجود نہیں۔ پارلیمان کا اجلاس بھی ابھی تک اس میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکا۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر