’طیارے سے نکلنے کے لیے 12 فٹ کی اونچائی سے چھلانگ لگائی‘

معجزانہ طور پر بچ جانے والے ان دو افراد میں سے ایک 25 سالہ محمد زبیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو آنکھوں دیکھا منظر بیان کیا اور بتایا کہ کیسے وہ اس طیارے سے خود کو نکالنے میں کامیاب ہوئے۔

کراچی کے علاقے ماڈل کالونی میں ایک مسافر طیارہ اس وقت گر کر تباہ ہو گیا جب وہ لاہور سے آتے ہوئے ائیرپورٹ سے کچھ ہی فاصلے کی دوری پر تھا۔

یہ حادثہ جمعہ کی دوپہر کو پیش آیا جس کے نتیجے میں پائلٹ اور عملے کے ارکان سمیت 97 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

طیارے کے مکانات پر گرتے ہی اس میں آگ لگ گئی جس کی وجہ سے طیارے کے اندر موجود افراد کے ساتھ ساتھ ماڈل کالونی کے رہائشی میں اس کی زد میں آگئے۔

اس سب کے دوران دو افراد ایسے بھی تھے جنہیں یقیناً چوٹیں تو آئیں لیکن وہ زندہ رہے۔

بد نصیب جہاز کے دو خوش نصیب مسافروں میں ایک  محمد زبیر اور دوسرے بینک آف پنجاب کے صدر  ظفر مسعود ہیں۔

معجزانہ طور پر بچ جانے والے ان دو افراد میں سے ایک 25 سالہ محمد زبیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو آنکھوں دیکھا منظر بیان کیا اور بتایا کہ کیسے وہ اس طیارے سے خود کو نکالنے میں کامیاب ہوئے۔

زبیر کراچی کے علاقے اعظم ٹاؤن کے رہائشی ہیں اور پیشے کے اعتبار سول انجینئیر ہیں۔

زبیر نے کراچی کی نیو پورٹز یونیورسٹی سے اپنی انجینئیرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور وہ سیالکوٹ میں امتیاز سپر مارکیٹ کی تعمیرات میں پراجیکٹ مینیجر کے فرایض انجام دے رہے تھے۔

طیارے میں موجود دیگر مسافروں کی طرح محمد زبیر بھی اپنوں کے ساتھ عید منانے کراچی آ رہے تھے۔

محمد زبیر کہتے ہیں کہ ’جب میں لاہور سے اس فلائٹ پر سوار ہوا تو مجھے بالکل بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ میرا جہاز کریش ہو جائے گا۔ اس سے قبل میں 50 سے 60 مرتبہ ہوائی جہاز میں سفر کرچکا ہوں اور ہر بار کی طرح اس بار بھی مجھے یقین تھا کہ میں صحیح سلامت گھر پہنچ جاؤں گا۔‘

’فلائٹ کے دوران ایک مرتبہ بھی ایسا نہیں لگا کہ جہاز کریش ہوگا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زبیر بتاتے ہیں کہ ’پائلیٹ نے ایک بار لینڈنگ کی کوشش کرنے کے بعد جب دوسری مرتبہ جہاز کو ہوا میں اوپر اٹھایا تو کئی مسافروں کو ایسا لگا کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے اور اب صحیح طرح سے لینڈنگ ہوگی لیکن انجن کی خرابی کے باعث جہاز کریش ہو گیا۔‘

طیارہ گرنے سے پہلے کے لمحات یاد کرتے ہوئے محمد زبیر کا کہنا تھا کہ ’جیسے ہی جہاز کسی عمارت سے ٹکرایا تو میں نے ہاتھوں سے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیا جس کی وجہ سے میرا منہ جلنے سے بچ گیا۔‘

’میں نے جب آنکھیں کھولی تو جہاز میں ہر طرف آگ اور دھواں تھا۔ میں فوری طور پر اپنی سیٹ بیلٹ کھول کر اٹھا اور ادھر ادھر دیکھا تو مجھے ایک روشنی نظر آئی جس کی جانب میں نے چلنا شروع کر دیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب وہ اس مقام پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں سے جہاز کے باہر کا راستہ تھا۔ یہ دیکھتے ہوئے انہوں نے بنا کچھ سوچے سمجھے چھلانگ لگا دی۔

زبیر کے مطابق انہوں نے تقریباً 11 سے 12 فٹ کی کی بلندی سے چھلانگ لگائی جس کے بعد وہ بے حوش ہوگئے۔

سوشل میڈیا پر جائے وقوعہ کی ایک ویڈیو بھی گردش کرتی رہی جس میں صاف نظر آ رہا ہے کہ محمد زبیر بے حوش ہیں اور انہوں نے نیلی قمیص اور خاکی پینٹ پہنی ہوئے ہے۔

ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ علاقہ مکینوں نے مل کر زبیر تو اٹھایا اور انہیں ایمبولینس کی طرف لے کر گئے۔

زبیر کے مطابق انہوں نے اگلی بار جب آنکھ کھولی توایمبولینس میں تھے جہاں انہیں بتایا گیا کہ انہیں جناح ہسپتال لے جایا جا رہا ہے۔

 ’میں نے ایک نرس کو اپنے بڑے بھائی ارشد کا نمبر دیا اور ان سے کہا کہ میرے گھر والوں سے فوری طور پر رابطہ کر لیں۔‘

زبیر کے بھائی ارشد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ہسپتال سے کال ملنے کے بعد فوری طور پر جناح ہسپتال پہنچے البتہ انہوں نے پہلے ہی ٹی وی پر پلین کریش کی خبریں سننے کے بعد مختلف ہسپتالوں میں کال کرنا شروع کردی تھی۔

ارشد کا کہنا تھا کہ ’ہم جناح ہسپتال پہنچے کو زبیر کو صحیح سلامت دیکھ کر ہماری جان میں جان آئی۔ ’یہ ہمارے لیے کسی معجزے سے کم نہیں تھا کہ اتنے خطرناک حادثے میں بھی میرا بھی صحیح سلامت ہماری آنکھوں کے سامنے موجود تھا۔‘

محمد زبیر کے ہاتھ  اور ٹانگیں جہاز میں لگنے والی آگ سے جھلس گئے ہیں تاہم ان کے بھائی کا کہنا ہے کہ  ڈاکٹرز سے مشورہ کرکے زبیر کو فوری طور پر سول ہسپتال کے برنز وارڈ میں شفٹ کروایا جہاں سے ان کا علاج کروانے کے بعد انہیں گھر لے جایا گیا ہے۔

محمد زبیر نے آخر میں کہا کہ اس حادثے کے بعد جہاں تک ممکن ہوا ’جہاز کا سفر نہیں کروں گات صرف مجبوری کی صورت میں ہی کروں گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان