اوسلو معاہدے کو سیاسی طلاق؟

محمود عباس اگر اپنے بیان اور اعلان میں سنجیدہ ہوتے تو اپنے 19 مئی کے خطاب میں اتحاد پر مبنی فلسطینی سیاسی ایجنڈا پر بات کرتے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ حقیقی فلسطینی حکمت عملی ان کا کبھی بھی مطمع نظر نہیں رہی۔

فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس گذشتہ دنوں امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ دفاعی تعاون ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے (اے ایف پی)

ہمیں باور کرایا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ کچھ مختلف ہو گا۔ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس ’ابو مازن‘ اسرائیل اور امریکہ سے کیے گئے تمام معاہدوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے میں انتہائی سنجیدہ ہیں۔ ابو مازن نے ابھی ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا جس کی روشنی میں وہ ان فلسطینیوں کے حق کے لیے جان کی بازی لگانے پر تیار ہو جائیں کہ جن کے کاندھوں پر ان کی مقتدرہ گذشتہ تین دہائیوں سے سوار ہے۔

لیکن فلسطینی سیاست اور بالخصوص محمود عباس کی کہہ مکرنیوں کی تاریخ سے آگاہ سیاسی پنڈت مرحوم منو بھائی کے الفاظ میں اپنی اس رائے پر قائم ہیں، کہ

کیہہ ہوئیا اے؟

کجھ نئیں ہوئیا!

کیہہ ہووے گا؟

کجھ نئیں ہونا!

کیہہ ہو سکدا اے؟

کجھ نہ کجھ ہوندا ای رہندا اے

جو توں چاہنا ایں اوہ نئیں ہوناں

ہو نئیں سکدا

کرناں پیندا اے

حق دی خاطر لڑنا پیندا اے

جیون دے لئی مرنا پیندااے

مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں 19 مئی کو فلسطینی اتھارٹی کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے محمود عباس نے اس امر کا اظہار کیا کہ تنظیم آزادی فلسطین اور ’فلسطینی ریاست‘ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی امور سمیت طے پانے تمام معاہدوں اور سمجھوتوں سے دست برداری کا اعلان کرتی ہے۔

محمود عباس کے اعلان کی حمایت میں فلسطین کے طول وعرض سے کسی چھوٹے یا بڑے مظاہرے کی اطلاع نہیں ملی۔ فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام چلنے والے ذرائع ابلاغ سے وابستہ ابو مازن کے مٹھی بھر حاشتہ برداروں کے علاوہ کہیں سے بھی ایسی آواز سنائی نہیں دی جس میں فلسطین کے ’مختار کل‘ کی جانب سے اتنے اہم اعلان کی تائید ہوتی ہو۔ ابو مازن نے جن معاہدوں سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے وہ دراصل اب تک فلسطینی اتھارٹی کے 30 سالہ دور اقتدار کو سند جواز فراہم کرتے چلے آئے ہیں۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ محمود عباس، فلسطینیوں کے لیے بہت عرصہ پہلے ہی غیر اہم ہو گئے تھے۔ تاہم اسرائیلیوں کی آنکھ کا تارہ وہ اب تک اس لیے بنے ہوئے ہیں کہ ان زیر انصرام فلسطینی اتھارٹی قابض اسرائیلی فوج اور زیر قبضہ فلسطینیوں کے درمیان ایک اضافی بفر زون کا کام کرتی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے اسی سکیورٹی تعاون کی ’برکت‘ سے اسرائیل، فلسطینی اراضی پر اپنے ناجائز تسلط کو انتہائی سکون سے مضبوط بناتا چلا آیا ہے۔

یکے بعد دیگرے سامنے آنے والے رائے عامہ کے متعدد جائزے اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ محمود عباس فلسطینیوں کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ یہ صورت حال اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس کے پیچھے کئی دہائیوں کی ناکامی اور ناامیدی کا ہاتھ ہے۔

ناروے کے صدر مقام اوسلو میں (1993) کو طے پانے والے امن معاہدے کو گلے سے لگا کر محمود عباس کو اس کے سوا کچھ نہیں ملا کہ انہوں نے سکیورٹی کا ایک بدنام زمانہ اور کرپٹ ادارہ تشکیل دیا جوٖ غاصب اسرائیلیوں کی جانب سے فلسطینیوں کو غلام بنانے کے لیے صہیونی ریاست کو غیرمشروط تعاون پیش کرتا چلا آیا ہے۔

سال 2005 میں فلسطینی اتھارٹی کی زمام کار سنبھالنے کے بعد سے محمود عباس، حکمران جماعت ’فتح‘ اور ان کے ہم نوا امریکہ یا اسرائیل کو ناکوں چنے چبوانے کی بجائے ابو مازن کے فلسطینی حریفوں محمد دحلان اور غزہ کی پٹی میں اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے ساتھ پنجہ آزمائی میں مصروف رہے ہیں۔

رام اللہ سے لے کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فلور پر محمود عباس کی وقتا فوقتا کی جانے والی تقاریر میں اسرائیل ہمیشہ مرکزی نکتہ رہا ہے۔ تاہم زبانی جمع خرچ کے علاوہ صہیونی ریاست کے خلاف عملی طور پر کوئی بھی اقدام اٹھانے سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔ اس تجاہل عارفانہ سے فائدہ اٹھا کر اسرائیلی فوجیوں اور فلسطینیوں کی غصب شدہ اراضی پر بسنے والے غیرقانونی یہودی آباد کاروں نے بلا روک فلسطینیوں کے حقوق کی منظم پامالی کا بازار گرم کیے رکھا۔

محمود عباس کی 80 ہزار اہلکاروں پر مشتمل سکیورٹی فورس غرب اردن میں فلسطینیوں کے مکان مسمار کرنے والے اسرائیلی بلڈوزروں کو روکنے یا قدیم زیتون کے درختوں کو تلفی سے بچانے کے لیے ایک بار بھی حرکت میں نہیں آئی اور نہ ہی اس طاقتور فورس نے کبھی اسرائیل مخالف سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں روکنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ بسا اوقات تو شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں محمود عباس فورس ایسے سیاسی مخالفین کو خود گرفتار کر کے لیے اسرائیلی جیلوں کا پیٹ بھرنے میں پیش پیش رہی۔

غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی جانب سے بھسم کرنے والے فاسفورس بموں سمیت آتش و آہن کی بارش کے دنوں میں بھی محمود عباس اپنے فلسطینی ’دشمنوں‘ بر تبرا بھیجنے سے باز نہیں رہے۔ انہوں نے غزہ میں اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کی ہمیشہ حوصلہ شکنی تو کی لیکن وہ غزہ کی دلیرانہ جدوجہد کا متبادل پیش کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے۔

محمود عباس اگر ماضی کے توہین آمیز سلوک کے باوجود بقائے باہمی کے اصول پر کاربند رہے ہیں تو اب ان معاہدوں کو خیرباد کہنے کا کیا جواز بنتا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ہمیں فلسطینی صدر کے فیصلے کے سیاسی منظر نامے کا جائزہ لینا ہو گا۔

فروری 2015 میں محمود عباس نے اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کی وجہ اسرائیل کا وہ فیصلہ بنا جس کے تحت صہیونی ریاست نے فلسطینیوں کے کئی ملین ڈالرز مالیت کے ٹیکس کی ادائیگی روک لی۔ اسرائیل، فلسطینی مقتدرہ کی نیابت میں یہ ٹیکس جمع کرتا چلا آیا ہے۔

جولائی 2017 میں بھی اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون خاتمے کا ایسا ہی اعلان اس وقت سامنے آیا جب صہیونی ریاست نے یروشلم میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کے گرد غیرقانونی اقدامات اٹھائے۔ ایک مرتبہ پھر ستمبر 2018 میں امریکہ نے یک طرفہ طور پر یروشلم کو اسرائیل کا صدر مقام قرار دینے کا اعلان کیا، جو فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل سے سکیورٹی تعاون ختم کرنے کے اعلان کی بنیاد بنا۔

جولائی 2019 میں بیت المقدس میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے مکانات مہندم کرنے کے بعد محمود عباس نے اسرائیل سے سکیورٹی تعاون خاتمے کا لالی پاپ دے کر فلسطینیوں کو بہلانے کی کوشش کی۔

اسرائیل کو زبانی دھمکیاں دینے کا تازہ ترین واقعہ امریکہ کی جانب سے ’صدی کی بدترین سودے بازی‘ المعروف ڈیل آف دی سینچری کے اعلان کے بعد سامنے آیا۔ امریکی صدر کے اعلان کے بعد محمود عباس نے فلسطینی مجلس قانون ساز کو تحلیل کرنے کی دھمکی دی، جسے 2006 کے انتخاب کے بعد ابو مازن نے ایک دن بھی اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام نہیں کرنے دیا۔

یہ دھمکیاں صرف وہ ہیں کہ جن کا پرتو کہیں نہ کہیں ذرائع ابلاغ میں دکھائی دیتا رہا ہے۔ درحقیقت اسرائیل کے خلاف محمود عباس کی دھمکیوں پر مبنی ’جنگ‘ کو صہیونی ریاست میں ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ حالیہ دھمکی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس مرتبہ محمود عباس کو انتہائی سیاسی اکلاپے کا سامنا ہے۔ امریکیوں کی جانب سے دھتکار اور اسرائیلیوں کی جانب سے ان کی سیاسی پوزیشن کے عدم اعتراف کی وجہ سے ان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

سب سے اہم یہ بات کہ فلسطینی اب اس سراب سے نکل آئے ہیں کہ آزادی کا راستہ رام اللہ میں محمود عباس کے دفتر سے ہو کر گزرتا ہے۔ مسائل میں گھرے محمود عباس نے اندریں حالات اپنا آخری سیاسی کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ آگے چل کر کیا ہوتا ہے کیونکہ 84 سالہ فلسطینی رہنما کے پاس کھونے کو کچھ باقی نہیں بچا۔

اسرائیل اور امریکہ فلسطینی مقتدرہ سے کیے گیے معاہدوں میں پہلے ہی کئی بار خیانت کر چکا ہے، لہذا فلسطینیوں کے ان معاہدات سے باہر نکلنے کے اعلان کا زمینی صورت حال پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معاہدہ اوسلو 1999 تک اہم تھا کیونکہ اس وقت حتمی مرحلے کے مذاکرات کا ڈول ڈالا جانا تھا تاکہ آزاد فلسطینی ریاست کے اعلان سے پہلے تمام متنازع امور طے پا جائیں۔

مقبوضہ بیت المقدس اور فلسطینی مہاجرین کے حقوق کا معاملہ حتمی مذاکرات میں حل ہونا تھا، تاہم اب دو دہائیاں گزرنے کے بعد ان دونوں کور ایشوز کو مذاکرات کی میز سے ہی ہٹا دیا گیا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان زمین کا لین دین باہمی معاہدے کے تحت ہونا تھا، لیکن ’صدی کی بدترین سودے بازی‘ نے تو مقبوضہ علاقے اسرائیل میں ضم کرنے کی راہ ہموار کر دی۔

’سکیورٹی کوارڈی نیشن‘ اور ’امداد‘ صرف دو ایسے عناصر ہیں جو اسرائیلی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہے ہیں۔ انہیں کے بل بوتے پر فلسطینی مقتدرہ اور اس کی بھاری بھرکم فوج کے لایعنی آپریشن جاری ہیں۔

امریکہ نے اب محمود عباس کی فلسطینی اتھارٹی کے تمام فنڈز روک لیے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل کی نئی اتحادی حکومت نے اصولی طور پر غرب اردن کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے پر اتفاق کر لیا ہے، ایسے میں ابو مازن کے پاس کچھ باقی نہیں بچا ہے۔

تمام معاہدوں سے دست برداری کا اعلان کر کے محمود عباس اور ان کے حامی امید رکھتے ہیں کہ امریکہ اور تل ابیب میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں گی کیونکہ سکیورٹی تعاون روکنے سے اسرائیل کے یہودی آباد کاروں کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

محمود عباس اگر اپنے بیان اور اعلان میں سنجیدہ ہوتے تو اپنے 19 مئی کے خطاب میں اتحاد پر مبنی فلسطینی سیاسی ایجنڈا پر بات کرتے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ حقیقی فلسطینی حکمت عملی ان کا کبھی بھی مطمع نظر نہیں رہی۔

ابو مازن اپنی حالیہ شعبدہ بازیوں سے سیاسی ابھام پر مبنی ایک نئے سیاسی کھیل کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ مغربی حامیوں کی جانب سے دوٹوک سیاسی طلاق سے بچ سکیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ