اکیسویں صدی کے امریکہ میں یہ سب کیسے؟

جب تک مظاہرین اور ٹرمپ ایک دوسرے کو اشتعال دلاتے رہیں گے تب تک یہ معاملہ سلجھتا ہوا نظر نہیں آتا۔

 کینیا میں ایک آرٹسٹ مسٹر ڈیٹیل نے امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں ہلاک سیاہ فام شخص جارج فلوئیڈ کی پینٹنگ ایک دیوار پر بنائی ہے (اے ایف پی) 

کئی سالوں سے جب بھی پاکستان سے کوئی دوست یا پیشہ ورانہ ساتھی واشنگٹن تشریف لاتے ہیں اور ملنے کو کہتے ہیں تو میں فوری طور پر کہتا ہوں ’چلو میک فیئرسن سکوائر پر ملتے ہیں۔‘

میک فیئرسن سکوائر امریکی دارالحکومت کے شمال مغرب میں واقع ایک پارک کا نام ہے جو کہ سول وار کے ایک فوجی افسر جیمز میک فیئرسن کے نام سے منسوب ہے۔ میں مہمانوں سے کہتا ہوں کہ ’یہاں آجاؤ، چائے یا کافی پی لیں گے اور اسی بہانے وائٹ ہاؤس کا نظارہ بھی کر لیں گے۔‘

وائٹ ہاؤس اس سٹیشن سے کچھ میٹرز کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس سے تھوڑے فاصلے پر امریکہ کی مشہور ’کے سٹریٹ‘ ہے جو کہ دس ارب ڈالرز پر محیط امریکی لابنگ کی صنعت کا مرکز ہے۔ یہاں دنیا کے بڑے بڑے بڑے وکلا اور لابیسٹس کے دفاتر ہیں۔

امریکہ میں وزیر دفاع کےعلاوہ ریٹائرڈ فوجیوں کی فلاح و بہبود اور پینشن جیسے معاملات کے لیے ایک علیحدہ وزارت ہے۔ اسے ویٹرنز افیئرز کہتے ہیں۔ اس کا صدر دفتر بھی اسی علاقے میں واقع ہے۔ دنیا کے امیر ترین شخص جیف بیزوز نے واشنگٹن پوسٹ خریدنے کے بعد اس کا صدر دفتر بھی کے سٹریٹ منتقل کر دیا۔

فیئرسن سکوائر تک پہنچنے کے لیے اگر آپ ڈی سی میٹرو ریل کی اورنج، سلور یا بلیو ٹرین لیں تو آپ باآسانی یہاں پہنچ جائیں گے۔ ٹرین سٹیشن کے باہر کئی بارز، کافی شاپس اور ریسٹورنٹ ہیں۔ مہمانوں سے عموماً سٹار بکس میں ملاقات ہوتی ہے۔

عمران خان کے نئے پاکستان سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ کی حماقتوں پر ضرور بات ہوتی ہے اور گفتگو کا اختتام عموماً اس فقرے پر ہوتا ہے ’دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔‘ دوران گفتگو میرے مہمان پھر بھی بڑے گم سم رہتے ہیں۔ جب انہیں خدا حافظ کہنے کا وقت ہوتا ہے یا انہیں ٹرین سٹیشن تک چھوڑنا ہوتا ہے تو مہمان جاتےجاتے بڑی راز داری سے پوچھتے ہیں۔

’یار ایک بات تو بتاو؟‘

میں کہتا ہوں: ’جی پوچھیں‘

’وہ ۔ میں جب ٹرین سٹیشن سے باہر نکل رہا تھا تو مجھے کئی کالے نظر آئے۔ زیادہ تر بے گھر لگ رہے تھے، کچھ تو بالکل نشے میں دھت تھے۔ کچھ بھیک مانگ رہے تھے۔ کچھ تو مجھے بالکل ہی ذہنی مریض یا پاگل لگ رہے تھے۔ یہ کیا چکر ہے؟‘

جو لوگ پہلی مرتبہ امریکہ آتے ہیں تو انہیں یہ نظارہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ہے۔ انہیں یقین نہیں آتا کہ وائٹ ہاؤس اور کے سٹریٹ کے اتنے قریب اتنے سارے مسائل (غربت، بے روزگاری، منشیات، بےگھری وغیرہ) ایک ہی جگہ نظر آئیں گے۔ انہوں نے یہی سنا ہوتا ہے کہ امریکہ میں تو بڑے مزے ہیں۔ اس سپر پاور کے شہری تو بس عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔

ایک خاتون امریکی پولیس کے ہاتھوں مرنے والے سیاہ فام جارج فلوئیڈ کی پینٹنگ کے ساتھ تصویر لے رہی ہیں (تصویر: اے ایف پی)


اس ’کلچرل شاک‘ پر میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ جو امریکہ یا اس میں پائے جانے والے تضادات کو سمجھنا چاہتا ہے انہیں امریکہ شناسی کا سلسلہ میک فیئرسن سکوائر ہی سے شروع کرنا چاہیے کیونکہ اس جگہ پر جہاں ایک طرف آپ کو وائٹ ہاؤس نظر آتا ہے جس میں دنیا کا طاقتور ترین شخص مقیم ہے تو دوسری طرف آپ کو امریکہ کا وہ بھیانک رخ نظر آئے گا جو آپ کو ہالی وڈ کی فلموں میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ ہے امریکہ میں سیاہ فام آبادی  کی حالت زار۔

ایک ملک، دو قومیں

 آپ یوں کہہ لیں کہ امریکہ اپنے آپ میں دو ممالک ہے۔ ایک سفید فاموں پر مشتمل خوشحال پڑھا لکھا اور ترقی یافتہ امریکہ جس نے  پچھلے ہفتے خلا میں سپیس شٹل بھیجھا تو دوسری طرف وہ امریکہ ہے جس کی آبادی کا تقریباً 12 فیصد (چار کروڑ) سیاہ فاموں پر مشتمل ہے جن کی اکثریت غربت اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے۔ جو زندگی کی ہر شعبے میں سفید فام امریکیوں کے مقابلے میں کئی گناہ پیچھے ہیں۔ یہ امریکہ کی وہ آبادی ہے جسے 1865 تک تو غلام رکھا گیا اور 1965 تک ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں تھا۔

امریکہ نے جنگ عظیم دوم کے بعد بحثیت ملک تعلیم، معیشت، سیاست، سائنس میں تو بےحد ترقی کی لیکن اس سفر میں اس نے اپنی سیاہ فام آبادی کو فراموش کر دیا۔ اس سے امریکہ تو آگے بڑھتا گیا اور دنیا کا سپر پاور بن گیا لیکن اس ترقی کے ثمرات سیاہ فام امریکیوں تک نہیں پہنچے، جس کی وجہ سے ان کی پسماندگی اور احساس محرومیت بڑھتی گئی۔

زندگی کے دیگر شعبہ جات میں پسماندگی کے علاوہ سیاہ فام امریکیوں کو یہ شکایت بھی رہی ہے کہ حکومت اور بالخصوص پولیس ان کے ساتھ تعصب برتتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم این اے اے سی پی کا کہنا ہے کہ اگرچہ سیاہ فام امریکہ کی کل آبادی کا چھوٹا سا حصہ ہیں لیکن جیلوں میں بند سات لاکھ قیدیوں میں سے 34 فیصد سیاہ فام ہیں جس کا مطلب ہے کہ جب ایک شخص جیل چلا جاتا ہے تو اس کا اس کی بیوی اور بچوں پر ناقابل تلافی اثر پڑتا ہے اور وہ معاشی اور سماجی اعتبار سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔

جو لوگ جیل کاٹ کر نکلتے بھی ہیں تو انہیں روزگار اور رہائش کے حصول میں غیرمعمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ایسے افراد کی ایک بڑی تعداد دوبارہ جرم کی مرتکب ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 60 فیصد سے زائد قیدی رہا ہونے کے بعد دوبارہ جیل جاتے ہیں جن میں اکثریت سیاہ فاموں کی ہے۔

پولیس مخالف مظاہرے

 منیاپولس شہر میں 25 مئی کو پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام شخص جارج فلوئیڈ کی ہلاکت، جس کی ویڈیو دنیا بھر میں انٹرنیٹ پر شیئر ہوئی، کی وجہ سے ملک بھر میں غیرمعمولی حکومت (بلکہ پولیس) مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جرائم پیشہ افراد نے توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔

یہ واقعات ایک ایسے وقت میں پیش آرہے ہیں جب یہاں ایک لاکھ سے زائد افراد کرونا (کورونا) وائرس کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ چار کروڑ کے قریب افراد بےروزگار ہیں جب کہ پانچ ماہ میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی دوڑ میں حصہ لینے والے اینڈور ینگ نے موجودہ حالات کا صیح انداز میں احاطہ کیا ہے کہ امریکہ میں اس وقت بحران (کرونا) پہ بحران ( معاشی) پہ بحران (مظاہرے) ہے۔ جبکہ دی اٹلانٹک جریدے کے صحافی جیمز فالوز نے اسے امریکہ کی جدید تاریخ کا بدترین سال قرار دیا ہے۔

امریکہ میں سیاہ فام شہریوں پر تشدد، ان کے ساتھ معتصبانہ رویہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن موبائل فون اور انٹرنیٹ نے اس غیرانسانی سلوک کو بےنقاب کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ بڑے سادگی سے پوچھتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں یہ سب کچھ امریکہ جیسے ملک میں کیسے ہو رہا ہے جو کہ خود کو انسانی حقوق کا عالمی علم بردار کہتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں اگرچہ کاغذی اور قانونی اعتبار سے سب شہری برابر ہیں لیکن نسل پرستی ایک ایسی چیز ہے جو کہ لوگوں کے دل و دماغ میں پائی جاتی ہے اور اسے صرف قانون سازی کے ذریعے جڑ سے اکھاڑا نہیں جاسکتا۔ اگر اعداد وشمار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں سیاہ فاموں میں اگرچہ بارک اوبامہ اور اوپیرا ونفری جیسے چند لوگوں نے بےپناہ کامیابی، شہرت اور دولت کمائی ہے لیکن ان چند افراد کی کامیابی قطعاً اکثریت کی ترجمانی نہیں کرتی۔

سات سال قبل شروع ہونے والی بلیک لائیوز میٹر (یعنی سیاہ فاموں کو بھی زندہ رہنے کا حق ہے) نامی تحریک اگرچہ ملک بھر میں پھیل رہی ہے لیکن اس میں اور 1960 کی دہائی میں چلنے والی تحریک میں کچھ بنیادی فرق ہے۔ جہاں ماضی میں امریکہ اپنی سیاہ فام آبادی کی حالت زار کو ملک اور باقی دنیا سے چھپا سکتا تھا اب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ سب کچھ کرنا ممکن نہیں رہا۔ دنیا بھر میں جارج فلوئیڈ کی پولیس اہلکار کے ہاتھوں ہلاکت کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے اور مظاہرے ہو رہے ہیں۔

 سوشل میڈیا پر نہ صرف خبریں جلدی پھیل جاتی ہیں بلکہ لوگوں کو مظاہروں کے لیے منظم کرنا بھی ماضی کے مقابلے میں آسان ہوگیا ہے۔ تاہم موجودہ تحریک اس اعتبار سے کمزور ہے کہ اس میں ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ اور میلکم ایکس جیسے مقبول عوامی رہنما موجود نہیں ہیں جو اپنی قوم کی رہنمائی کریں اور واشنگٹن میں اپنا مقدمہ بہادری سے لڑ سکیں۔

حالیہ سالوں میں امریکہ میں اور بھی کئی تحاریک (مثلاً وال سٹریٹ گھیراؤ تحریک) شروع ہوئی ہیں لیکن واضح پلان اور قابل رہنما کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ تحاریک وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ منتشر ہوگئیں۔ اسی طرح 1960 کی دہائی میں سفید فام صدور جان ایف کینیڈی اور لینڈن جانسن سیاہ فاموں کو ان کے حقوق دینے  کے زبردست حامی تھے جب کہ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ مظاہرین کے سخت خلاف ہیں اور انہیں بےدردی سے کچلنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے مظاہرین  کو دھمکی دی کہ وہ ان پر کتے دوڑائیں گے۔

اس دھمکی سے مظاہرین مزید مشتعل ہوئے کیونکہ ساٹھ کی دہائی میں اس وقت کی حکومت نے سیاہ فام مظاہرین پر کتے چھوڑے تھے۔ جب تک مظاہرین اور ٹرمپ ایک دوسرے کو اشتعال دلاتے رہیں گے تب تک یہ معاملہ سلجھتا ہوا نظر نہیں آتا۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ