دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے دوران ہلاک ہونے والے کوہ پیماؤں کی سالوں پرانی لاشیں اب سامنے آنے لگی ہیں۔
حکام کے مطابق حالیہ کچھ سالوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ماؤنٹ ایورسٹ کی برفیلی سطح پتلی ہونے کی وجہ سے برسوں پرانی لاشیں باہر آنا شروع ہوگئی ہیں۔
1953 میں سر ایڈمنڈ ہیلری اور ٹینزنگ نارگے نے پہلی مرتبہ دنیا کے سب سے بڑے پہاڑ کو سر کیا تھا ، جس کے بعد آج تک 48 سو سے زائد کوہ پیما یہ کارنامہ سر انجام دے چکے ہیں۔ اس دوران تقریباً 300 کوہ پیما مہم کے دوران ہلاک ہوئے۔
ماؤنٹ ایورسٹ سے لاشوں کو واپس لانا ایک مشکل اور مہنگا عمل ہے، لہذا مہم کے دوران ہلاک ہونے والے زیادہ تر کوہ پیماؤں کی لاشوں کو وہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ آج بھی تقریباً دو تہائی لاشیں برف تلے دبی ہوئی ہیں۔ تاہم، نیپال ماؤنٹنگ ایسوسی ایشن کے سابق صدر اینگ شیرنگ شیرپا کہتے ہیں، ’برف کی تہیں اور گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس کی وجہ سے سالوں پرانی لاشیں سامنے آنے لگی ہیں۔‘
انہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے گفتگو میں اس کی بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا، ’ہم حالیہ سالوں میں ہلاک ہونے والے کچھ کوہ پیماؤں کی لاشیں واپس لاتے رہے ہیں لیکن اب پرانی لاشیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔‘
نیپال کے ایک سرکاری افسر نے اینگ کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ’میں خود ایورسٹ کی مختلف جگہوں سے حالیہ برسوں میں دس کے قریب لاشیں واپس لا چکا ہوں اور ابھی مزید لاشیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔‘
متعدد ریسرچوں سے پتہ چلا ہے کہ ہمالیہ کے گلیشیئرز پر کافی برف پگھل رہی ہے اور آئندہ اس میں مزید تیزی کا خدشہ ہے۔
210 محققین کی رواں سال جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر حکومت نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے سخت فیصلے نہ کیے تو 2100ء تک خطے کی ایک تہائی برف پگھل جائے گی۔