لاہور: مریضوں کی بڑھتی تعداد سے ہسپتالوں میں بیڈ کم پڑنے کا خدشہ

پی کے ایل آئی میں بیڈز ختم جبکہ میو ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کے مطابق حکومت کی جانب سے دو ہزار سے بھی کم بیڈز کا انتظام کیا گیا تاہم مریضوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

لاہور میں ایکسپو سینٹر میں قائم فیلڈ ہسپتال میں  ایک ہزار پچاس بیڈ  ہیں (اے ایف پی فائل)

حکومت نے کرونا (کورونا) وائرس کے متاثرہ مریضوں کے لیے مختلف سرکاری اور فیلڈ ہسپتال قائم کیے تھے۔تاہم لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد مریضوں کی تعداد میں آئے روز اضافے نے خطرے کی گھنٹی بجا دی کیونکہ مریضوں کے لیے ہسپتالوں میں انتظامات کم پڑنے کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے۔

پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں کرونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں گذشتہ ایک ماہ کے دوران ریکارڈ اضافہ ہوچکا ہے۔ انتظامیہ نے لاہور میں دو ہسپتالوں اور ایک فیلڈ ہسپتال میں کرونا مریضوں کو رکھنے کا اہتمام کیا تھا۔لیکن اب نازک حالت کے مریضوں کی بڑھتی تعداد کے لیے وینٹی لیٹرز بھی کم پڑتے جارہے ہیں۔ اسی خدشے کے پیش نظر حکومت نے ایک ہفتہ قبل کرونا سے متاثر ہونے والوں کو گھروں میں خود کو آئیسولیٹ کرنے کی اجازت بھی دی تھی۔

کتنے مریض رکھنے کے انتظامات رہ گئے؟

ملک میں سات جون تک 99 ہزار کے قریب مریض ہوگئے جن میں 37 ہزار سے زائد پنجاب میں ہیں۔ لاہور میں کرونا کے 18 ہزار سے زائد مریض ہیں۔ 

لاہور شہر، جو سب سے متاثرہ ہے، میں مریضوں کو رکھنے کے انتظامات کم پڑنے لگے ہیں۔ پنجاب کی صوبائی کرونا کمیٹی کے وائس چیئرمین ڈاکٹر اسد اسلم نے جمعے کو انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے میو ہسپتال میں 650 بیڈز کرونا مریضوں کے لیے مختص کیے اور ابھی وہاں ساڑھے پانچ سو مریض ہیں۔ جبکہ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ (پی کے ایل آئی) میں 75 بیڈ ہیں اور وہاں ساٹھ مریض ہیں، تاہم آئی سی یو میں آٹھ بیڈ ہیں اور وہاں کوئی خالی نہیں رہا۔ 

تاہم اتوار کو پی کے ایل آئی کے ترجمان تازین قریشی نے عرب نیوز کو بتایا کہ اب ہسپتال میں کوئی بھی بیڈ کھالی نہیں بچا۔ 

انہوں نے مزید بتایا کہ اسی طرح ایکسپو سینٹر میں بنائے گئے فیلڈ ہسپتال میں ایک ہزار پچاس بیڈز ہیں جبکہ وہاں آٹھ سو مریض ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور میں وینٹی لیٹرز صرف 50 ہیں جو تمام مریضوں کے لیے استعمال ہو رہے ہیں اور 20 مزید منگوائے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر اسد اسلم کے خیال میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں جیسے اضافہ ہورہا ہے اس سے ہسپتالوں میں بیڈز کی تعداد بہت زیادہ نہیں لیکن جو مریض صحت یاب ہوکر جارہے ہیں ان کی جگہ نئے مریضوں کو رکھا جارہا ہے۔

حکومتی انتظامات پر ڈاکٹروں کے تحفظات

گذشتہ ہفتے حکومت پنجاب کی جانب سے بنائی گئی ایک رپورٹ بھی منظر عام پر آئی جس میں بتایا گیا کہ ممکن ہے ٹیسٹ کے ذریعے تصدیق شدہ مریضوں کے علاوہ بھی لاہور میں چھ لاکھ ستر ہزار سے زائد افراد کرونا وائرس کا شکار ہیں۔

مریضوں کی تعداد کا تعین کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے صرف ٹیسٹوں پر انحصار کیا جا رہا ہے تاہم اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد ڈاکٹروں اور شہریوں میں تشویش پیدا ہوئی۔

میو ہسپتال کے کرونا وارڈ میں ڈیوٹی کرنے والے ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لاہور میں حکومت کی جانب سے کرونا مریضوں کے لیے انتظامات ناکافی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے دو ہزار سے بھی کم بیڈز کا انتظام کیا گیا جبکہ مریضوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

ہسپتالوں میں صرف نازک حالت والے مریضوں کو ہی داخل کیا جارہا ہے جبکہ باقیوں کو گھر میں ہی آئیسولیٹ ہونے کی ہدایت کر کے روانہ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وینٹی لیٹرز بھی کم پڑ چکے ہیں جبکہ مختلف ہسپتالوں میں دیگر وارڈز میں بھی بیڈز کرونا مریضوں کے لیے مختص کرنے کی ہدایات جاری ہوچکی ہیں۔

ان کے خیال میں کرونا مریضوں کے رش سے لاہور میں ڈاکٹروں اور نرسوں میں کرونا پھیلتاجارہا ہے اور کئی ڈاکٹروں اور نرسوں کو خوف لاحق ہے لیکن ڈیوٹی بھی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو مزید انتظامات کرنا ہوں گے کیونکہ آنے والے دنوں میں اس وبا کی شدت میں اضافے کی پیشن گوئی کی جارہی ہے۔واضع رہے محکمہ صحت کی جانب سے اس معاملے پر بنائی گئی رپورٹ ابھی تک جاری نہیں ہوسکی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان