کرونا بحران: ہمارے سفیر اور حکومتی بےحسی

بدقسمتی سے حکومت کی ترجیحات میں نہ خارجہ پالیسی شامل ہے اور نہ ہی سفارت کاروں کی بہبود۔ سفارت کاروں کے مسائل حل کرنے پر توجہ دینے کی بجائے ان سے مسلسل چشم پوشی کی جا رہی ہے اور انہیں کرونا (کورونا) بحران کے دوران تنہا بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔

کابل میں پاکستان کے سفارت خانے کا صدر دروازہ (اے ایف پی)

کہتے ہیں کہ سفارت کاری کسی بھی ملک کے دفاع کی سب سے پہلی لائن ہوتی ہے۔ ماہرانہ سفارت کاری سے ہولناک بین الاقوامی تنازعات سے بچا جاسکتا ہے اور ملکوں کے درمیان کامیاب سیاسی، معاشی اور ثقافتی رابطے قائم کر کے عالمی اور علاقائی امن کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن حال ہی میں حکومتی اقدامات سے لگتا ہے کہ کہ وہ ریٹائرمنٹ کے قریب ہمارے بیرون ملک سفیروں کو بھول گئی ہے۔

سفارت کاری کی ناکامی جنگوں اور انسانی ہلاکتوں پر منتج ہوتی ہے۔ جدید دور کی مواصلات کی سہولتوں اور عالمی رہنماؤں کے بڑھتے ہوئے ذاتی تعلقات کے باوجود ابھی بھی بیشتر ممالک، چاہے غریب یا امیر، روایتی سفارت کاری کی اہمیت کو جانتے ہوئے اس شعبے میں خطیر سرمایہ کاری کرتے ہیں۔

عاقل ندیم کا یہ کالم آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں 

 

سفارت کاروں کی اہمیت اور ان کے کام کی پیچیدگی، نزاکت اور سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے کئی ممالک اپنے سفارت کاروں کو ان کی کامیابیوں پر قومی اعزازات سے بھی نوازے ہیں اور انہیں اپنے معاشرے میں اور ریاستی معاملات میں تکریم کا مقام دیتے ہیں۔ بعض ممالک میں تو باقاعدہ سفارت کاروں کا سرکاری دن تک منایا جاتا ہے اور انہیں پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے فارغ ہونے پر قومی تمغوں سے بھی نوازا جاتا ہے۔ ان ممالک میں سفیروں کو اپنی خدمات کے اختتام پر ریاست کے سربراہ کی طرف سے شکریہ کے ذاتی خطوط بھی لکھے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسی کوئی اچھی روایت نہیں پائی جاتی۔

سفیر کو ریاست کا نمائندہ تصور کرتے ہوئے بیرون ملک اعلی عزت و تکریم دی جاتی ہے۔ سفیر اپنی تعیناتی کا خط جو اسے اپنے ملک کے صدر نے میزبان ملک کے صدر، بادشاہ یا ملکہ کے نام دیا ہوتا ہے، ایک پروقار تقریب جس میں پورا ریاستی پروٹوکول شامل ہوتا ہے، میزبان ملک کے صدر، بادشاہ یا ملکہ کو پیش کرتا ہے۔

میزبان ریاستی سربراہ خط وصول کرنے کے بعد سفیر سے پندرہ سے تیس منٹ تک گفتگو کرتا ہے جس میں دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے سے متعلق بات چیت ہوتی ہے۔ اس ملاقات میں میزبان ملک کے وزیر خارجہ بھی موجود ہوتے ہیں اور تمام اہم نکات کو نوٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ غرض سفارت کاری ایک سنجیدہ کام ہے اور اس کی سنجیدگی کو حکومتی اہلکاروں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

عموما ہمارے ہاں یہ غلط فہمی عام ہے کہ سفارت کاری صرف پارٹیوں اور عشایوں میں شرکت کا نام ہے اور یہ ایک طرح کی حکومتی خرچ پر بیرون ملک چھٹی منائی جا رہی ہوتی ہے۔

یقینا بہت سارے ممالک میں سہولتوں کے باعث سفارت کاری نسبتا کم مشکل کام ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے کئی سفارت کار کافی دشوار اور خطرناک جگہوں پر کام کرتے ہیں جہاں پر کبھی تو بنیادی طبی سہولتیں بھی میسر نہیں ہوتیں۔ اور بعض اوقات تو انہیں جانی خطرات کا سامنا بھی ہوتا ہے۔

افغانستان میں ہمارے سفارت کار پچھلی کئی دہائیوں سے کابل اور دیگر شہروں میں اپنی جان خطرے میں ڈال کر فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں۔ ستمبر 1995 میں کابل میں ہمارے سفارت خانے پر حملہ کیا گیا جس میں ایک اہلکار شہید ہوئے اور ہمارے سفیر قاضی ہمایوں اور کچھ اور سفارتی اہلکار شدید زخمی ہوئے۔ سفارت خانے کے عملے کو بہت مشکل سے نکال کر پاکستان لایا گیا۔ حملے کے دوران عمارت کو آگ لگا دی گئی اور اگلے 15 سال وہ جگہ ایک کھنڈر کا منظر پیش کرتی رہی۔

میں خود اگلے سال 1996 میں تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں دہشت گردی کے واقعے میں بال بال بچا تھا۔ ہماری سٹاف کار جس میں دو منٹ پہلے میں سفارت خانے میں داخل ہوا تھا، ایک دھماکے سے تباہ ہوگی۔ خوش قسمتی سے ڈرائیور بھی گاڑی سے نکل کر سفارت خانے کے استقبالیہ تک پہنچا ہی تھا جب گاڑی میں نصب ٹائم بم پھٹا۔ کیوں کہ گاڑی قدرے فاصلے پر گیراج میں پارک کی گئی تھی، اس لیے سفارت خانے کی عمارت کو سوائے تمام شیشے ٹوٹنے کے کوئی زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔

ہمارے سفارت کاروں نے کئی دیگر ممالک میں بھی جانی و مالی مشکلات کا سامنا کیا جن میں کویت، عراق، لیبیا، شام اور یمن شامل ہیں۔ ان ممالک میں امن وامان کی سنگین صورت حال کے باوجود ہمارے سفارت کار ان ممالک میں تندہی سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور سرکاری طور پر ان کی بیش بہا خدمات کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔

بدقسمتی سے وفاقی حکومت کی ترجیحات میں نہ خارجہ پالیسی شامل ہے اور نہ ہی ہمارے سفارت کاروں کی بہبود۔ ہمارے سفارت کاروں کے مسائل حل کرنے پر توجہ دینے کی بجائے ان سے مسلسل چشم پوشی کی جا رہی ہے۔ ان کی بیش بہا خدمات کو نظر انداز کرتے ہوئے کرونا (کورونا) بحران کے دوران کچھ سفیروں کو تنہا اور بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔

حال ہی میں کچھ سفرا ریٹائر ہوئے ہیں اور ان کی داد و فریاد کے باوجود کہ وہ کمرشل پروازوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے کس طرح پاکستان واپس آئیں، وزیر اعظم آفس مکمل خاموش ہے۔ نہ ہی ان سفیروں کے بیرون ملک قیام میں توسیع کی گئی ہے اور نہ ہی انہیں بتایا جا رہا ہے کہ وہ کس طرح پروازوں کی عدم موجودگی کے باعث اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر ملک واپس آئیں۔

قاہرہ میں ہمارے سفیر اپریل میں ریٹائر ہوئے اور انہیں کسی قسم کی مدد یا ہدایات نہیں دی گئی۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد نہ وہ تنخواہ لے سکتے تھے اور نہ ہی سرکاری قیام گاہ استعمال کرسکتے تھے لیکن انہیں کسی قسم کی کوئی واضح ہدایت نہیں دی گئی۔ آخر مجبور ہو کر وہ باقی محصور پاکستانیوں کے ساتھ مل کر بمشکل ایک چارٹرڈ فلائٹ کا انتظام کر کے واپس پاکستان پہنچے۔ تقریبا اسی قسم کا سلوک انڈونیشیا اور شام میں متعین ہمارے سفیروں کے ساتھ ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس وقت میکسیکو میں ہمارے سفیر ریٹائرمنٹ کے بعد محصور پاکستانی بنے ہوئے ہیں اور ان کی واپسی یا قیام میں توسیع کے بارے میں وفاقی حکومت کے پاس فیصلہ کرنے کا وقت نہیں ہے۔ اگلے مہینے ایتھوپیا کے سفیر ریٹائر ہوں گے اور وہ بھی اسی غیریقینی صورت حال کا شکار ہوں گے۔

بیرون ملک ہماری ریاست کے اعلی نمائندوں کے مسائل کو حل کرنے کا کیا یہی طریقہ ہے کہ ملازمت پوری ہونے کے بعد انہیں کرونا بحران کے دوران بیرون ملک بے یارومددگار چھوڑ دیا جائے؟ یہ مسئلہ انتہائی آسانی سے اور فورا حل کیا جا سکتا تھا اور سفیروں کو غیریقینی صورت حال سے بچا کر انہیں باآسانی قیام میں توسیع دی جا سکتی تھی جیسے کہ کئی ممالک نے کرونا بحران کی وجہ سے اپنے ریٹائرمنٹ کے قریب سفیروں کے قیام میں توسیع کر دی۔

موجودہ حکومت ناصرف خارجہ امور کے انتظامی معاملات میں غیرسنجیدہ رویوں کا مظاہرہ کر رہی ہے بلکہ خارجہ پالیسی میں بھی یہ مسلسل ناکامیوں سے دوچار ہے۔ ان سنجیدہ معاملات پر توجہ دینے کی بجائے وفاقی حکومت کی ترجیحات اور تمام تر قوت مخالفین کی سرکوبی پر مرکوز ہے۔ انہیں فکر ہے کہ کس طرح نیب کو استعمال کرتے ہوئے مخالفین کو جیلوں میں ڈالا جائے تاکہ حکومت کی پالیسیوں پر کوئی تنقید نہ ہو سکے۔ کس طرح اپوزیشن رہنما کو بدنام کرنے کے لیے ان کی لندن میں تصویر کو وائرل کیا جائے۔ یا وزیراعظم کی طرف سے علامہ اقبال سے غلط منسوب نظموں کو ٹویٹ کر کے عوام کی توجہ حکومتی ناکامیوں سے ہٹائی جائے۔ اور کس طرح ٹڈی دل حملے اور سنگین معاشی مسائل سے توجہ ہٹا کر اٹھارویں ترمیم کو زیر بحث لایا جائے۔

حکومت کی اس بےتوجہی، غیرجمہوری طریقوں سے اپوزیشن اور میڈیا کی سرکوبی اور قومی تقسیم کی پالیسی کی وجہ سے ہمارا دشمن ہمسایہ ملک بھارت ہمیں مسلسل آنکھیں دکھا رہا ہے اور روزانہ ایل او سی پر گولہ باری کی جا رہی ہے۔ ساتھ ساتھ گلگت بلتستان پر حملے کے شوشے بھی چھوڑے جا رہے ہیں۔

بھارت جانتا ہے کہ کمزور سیاسی قیادت اور تقسیم قوم اس کے لیے کسی قسم کا چیلنج ثابت نہیں ہو سکتی اسی لیے وہ بےخوف و خطر کشمیر میں اپنی ظالمانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ سی پیک کے بارے میں سینیئر وزرا کے متضاد اور متنازع بیانات حکومت کی خارجہ پالیسی میں غیرسنجیدہ رویے کا ایک اور واضح مظہر ہیں۔

ہم اس وقت اپنی تاریخ کے سنگین ترین خارجہ اور معاشی بحران سے گزر رہے ہیں۔ اس لیے حکمران جماعت کو ان چلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی یکجہتی بڑھانے اور گورننس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے نہ کہ فروعی مسائل میں قوم کا وقت ضائع کیا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ