مگرمچھ جو شترمرغ کی رفتار سے بھاگتے تھے

حال ہی میں تحقیق کے نتیجے میں سامنے آنے والی اس نئی نسل کو 'بٹراچوپس گرانڈیز' کا نام دیا گیا ہے۔

(تصویر: کیونگ سو کِم، چِن جو نیشنل یونیورسٹی آف ایجوکیشن)

جنوبی کوریا میں ماہرین امراضیات نے قدیم دور سے تعلق رکھنے والے پیروں کے نشانات سے معدوم ہونے والے ایسے مگرمچھ کو دریافت کیا ہے جو شترمرغ کی طرح دوڑتا تھا۔

جمعرات کو شائع ہونے والی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ قدموں کے یہ نشانات 11 کروڑ سال پرانے ہیں۔

یہ نشانات ایک سیدھی قطار کی طرح تھے اس لیے سائنسدانوں نے اندازہ لگایا کہ یہ جانور دو پیروں پر چلتا تھا۔

اس نئی نسل کو 'بٹراچوپس گرانڈیز' کا نام دیا گیا ہے۔

تحقیق کے مصنف مارٹن لوکلی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'لوگ مگرمچھ کو ایسا جانور سمجھتے ہیں جو زیادہ کچھ نہیں کرتے اور دریائے نیل یا کوسٹا ریکا کے دریاؤں کے کنارے پورا دن سست پڑے رہتے ہیں۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ مخلوق کیسی ہو گی اگر یہ دو پیروں پر شترمرغ یا ٹی ریکس (ٹرائنوسار ریکس) کی طرح دوڑ سکتی۔'

اس مخلوق کے وجود کا تمام انحصار قدیم دور کے قدموں کے نشانات ہیں اور اس کے کوئی جسمانی اعضا ابھی تک نہیں ڈھونڈے جا سکے۔

لیکن پروفیسر لوکلی کے مطابق اس صورت حال کی وضاحت ایک دو پیروں پر چلنے والا جانور ہی ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا ہے: 'ہم اس کی جلد میں تمام اعداد اور ڈھلوان دیکھ سکتے ہیں۔ بالکل ایسے جیسے آپ اپنا ہاتھ دیکھتے ہیں۔ وہ ایک پیر کے آگے دوسرا پیر رکھتے تھے۔ وہ ایک سیدھی لائن پر بالکل درست انداز میں چل سکتے تھے اور ان کے سامنے اگلے پیروں کے نشان نہیں تھے۔'

 تحقیق کے شریک مصنف پروفیسر کیونگ سو کم، جن کے ساتھ تحقیق تحریر کرنے میں جونگ ڈیوک لم، سیول می بائی اور انتھونی رومیلو بھی شامل تھے، نے بھی پروفیسر لوکلی کے نظریے کی حمایت کی۔

اس کی وجہ اس جانور کے تلوے کے نشان کی گہرائی تھی جو کہ فوسل پر موجود تھا۔

پروفیسر کیونگ سو کم کا کہنا ہے کہ 'قدموں کے نشانات والے یہ راستے بہت تنگ ہیں۔ جیسے کہ ایک مگر مچھ تنی ہوئی رسی پر توازن قائم رکھ رہا ہو۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی دم کے نشانات موجود نہیں ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ یہ مخلوق دو پیروں پر چل رہی تھی۔ یہ ایسے ہی چلتے تھے جیسے کہ ڈائنوسار لیکن یہ قدموں کے نشانات ڈائنوسار کے نہیں ہیں۔ ڈائنوسار اور ان کی اڑنے والی نسل اپنی انگلیوں پر چلتی تھی جبکہ مگرمچھ اپنے پیروں کے متوازی حصے پر چلتے ہیں جو تلوے کا نشان چھوڑتے ہیں بالکل انسانوں کی طرح۔'

لیکن اس نتیجے کو ابھی تک مکمل طور پر قبول نہیں کیا گیا۔

فوسلز پر تحقیق کرنے والے پروفیسر فل ماننگ جو کہ اس تحقیق کا حصہ نہیں تھے، کہتے ہیں: 'زندہ مگرمچھوں کی ویڈیوز دیکھیں اور ان کے پاؤں کی حرکت دیکھیں جب وہ دوڑ رہے ہوتے ہیں۔ یہ راستے کے درمیان سے باہر کی جانب نکلتے ہیں نہ کہ اندر کی جانب۔ لیکن ان قدموں کے نشانات سے ہی یہ مجھے ڈائنوسار کے قدموں جیسے نشانات لگتے ہیں، لیکن اگر یہ مگر مچھ بھی تھا تو فوسلز ہمیں یہ نہیں بتا سکتیں۔'

ایک ممکنہ صورت حال یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ جانور کم گہرے پانی سے گزر رہے تھے اور انہوں نے اس میں سے گزرنے کے لیے اپنے پچھلے پیروں کا استعمال کیا۔

 محققین کے مطابق یہ بات ناقابل قبول ہے کیونکہ یہ جانور اپنے تلووں پر چلتے ہوئے محسوس ہوتا ہے نہ کہ اپنی انگلیوں پر۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق