حکومت کی پشتون تحفظ موومنٹ کو ایک بار پھر مذاکرات کی پیشکش

مذاکرات کی پیشکش وزیر دفاع پرویز خٹک کے توسط سے کی گئی، تاہم اس حوالے سے ابھی تک پی ٹی ایم کا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

پی ٹی ایم رہنما محسن داوڑ (دائیں)، افراسیاب خٹک (درمیان) اور علی وزیر (بائیں) ایک پریس کانفرنس کے دوران (اے ایف پی)

وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنماؤں کو حکومت کی جانب سے دعوت دی ہے کہ وہ مل بیٹھ کر تمام متنازع مسائل سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کریں۔

اسلام آباد میں جاری کیے گئے ایک بیان میں پرویز خٹک  نے کہا کہ وہ اور پی ٹی ایم رہنما صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتے ہیں اور ’ہمیں اجتماعی طور پر صوبے کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ پختون قوم ایک محب وطن قوم ہے اور اپنے ملک کے دفاع میں اپنا خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کرے گی۔

حکومت کی جانب سے اس اچانک مذاکرات کی دعوت کی وجہ پرویز خٹک نے بیان نہیں کی لیکن قیاس کیا جارہا ہے کہ شاید ملکی حالات نے انہیں اس جانب پیش رفت پر مجبور کیا ہے۔

اس سرکاری پیشکش پر ابھی تک پی ٹی ایم کا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے کہا کہ 'سابق فاٹا کے عوام کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ان اضلاع کو صوبے میں ضم کر دیا گیا تھا۔ ان اضلاع کے عوام تعلیم، صحت کی بنیادی سہولیات اور مواصلات کے بنیادی ڈھانچے کے سلسلے میں باقی ملک سے پسماندہ تھے، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ان کی ترقی کے لیے سیاسی محاذ آرائی کی بجائے اجتماعی طور پر کام کیا جائے۔'

 پرویز خٹک نے پی ٹی ایم کی قیادت کو دعوت دی کہ وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور اپنے تحفظات بیان کریں تاکہ ان پر تبادلہ خیال کرکے انہیں دور کیا جا سکے۔

اس سے قبل مارچ 2019 میں بھی حکومت نے پی ٹی ایم کے ساتھ مذاکرات کا اعلان کیا تھا لیکن بات چیت کچھ زیادہ نہیں چل پائی تھی، کیونکہ پی ٹی ایم مذاکرات کے لیے تشکیل دی گئی حکومتی ٹیم کے اختیارات سے مطمئن نہیں تھی۔

 وزیر دفاع نے مزید کہا کہ 'ملک ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے اور عوام کو عالمی وبائی بیماری کرونا کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس نے نہ صرف ملکی معیشت بلکہ پاکستان کے لوگوں کی زندگیوں کو بھی تباہ کر دیا ہے۔'

پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ اس وائرس کے تیزی سے پھیلنے سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے اور ملک میں خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخوا میں سیاسی عدم استحکام لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ کرے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست