اٹھارہ سالہ کشمیری جنگجو کی کہانی: عمرے سے بے نشان قبر تک

ثقلین کے اہل خانہ کو ان کی ہلاکت سے زیادہ اس بات کا دکھ ہے کہ انہیں آبائی گاؤں سے 120 کلو میٹر دور غیر ملکی عسکریت پسندوں کے لیے مخصوص قبرستان میں دفنا دیا گیا۔

بی اے فرسٹ ایئر کے طالب علم ثقلین کیرم بورڈ کے ماہر کھلاڑی اور اپنی شرافت و سادگی کی وجہ سے جانے جاتے تھے( تصویر ظہور حسین)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے جنوبی اضلاع شوپیاں اور کولگام میں گذشتہ ہفتے چار فوجی آپریشنز میں مارے جانے والے 16 کشمیری عسکریت پسندوں میں 18 سالہ ثقلین امین بھی شامل ہیں۔

شوپیاں کے ربن نامی علاقے سے تعلق رکھنے والے ثقلین کے والدین اور بہن، بھائیوں کو ان کی ہلاکت سے زیادہ ان کے اپنے گاؤں سے 120 کلو میٹر دور شمالی کشمیر کے ضلع بارہ مولہ میں غیر ملکی عسکریت پسندوں کے لیے مخصوص قبرستان میں دفنائے جانے کا دکھ ہے۔

ثقلین کے بڑے بھائی افتخار امین (فرضی نام) نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ثقلین کی طرح باقی 15 عسکریت پسندوں کو بھی اپنے آبائی علاقوں سے اسی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ہے جہاں قبروں کی شناخت کے لیے ان پر کتبے نصب کرنے کی اجازت ہے اور نہ کوئی پتھر رکھنے کی۔

رواں برس یکم اپریل کو عسکریت پسندوں میں شامل ہونے سے قبل گورنمنٹ ڈگری کالج کولگام کے بی اے فرسٹ ایئر طالب علم ثقلین کیرم بورڈ کے ماہر کھلاڑی اور اپنی شرافت و سادگی کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔

افتخار کے مطابق ثقلین کو رواں برس دو مارچ کو عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب روانہ ہونا تھا جس کے لیے ان کی سفری دستاویزات بشمول ویزا اور ٹکٹیں بھی تیار تھیں لیکن سعودی حکومت نے کرونا (کورونا) وبا کی وجہ سے 27 فروری کو ملک میں داخلے پر پابندی عائد کر دی جس کی وجہ سے وہ عمرہ نہیں کرسکے۔

'ایک ماہ بعد یکم اپریل کو ثقلین کسی سے کچھ کہے بغیر گھر سے نکلے اور واپس نہیں لوٹے۔ ہم نے تمام رشتہ داروں سے فون پر بات کی لیکن ثقلین کا کوئی اتا پتا نہیں ملا جس کے بعد ہم نے قریبی پولیس تھانے میں گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی۔

'اگلے دو ماہ اور سات دن تک وہ اپنے گھر یا رشتہ داروں میں سے کسی سے رابطہ کرتے ہیں نہ ملنے کی کوشش۔ سات اور آٹھ جون کی درمیانی رات قریب ڈیڑھ بجے وہ مجھے فون کرتے ہوئے ہنستے ہنستے اپنے دیگر تین ساتھیوں سمیت پنجورہ میں فوجی محاصرے میں پھنسنے کی انتہائی پریشان کردینے والی خبر دیتے ہیں۔'

افتخار کے بقول ثقلین پر کوئی ڈر یا خوف طاری نہیں تھا اور انہوں نے ماں سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کرنے سے قبل بتایا کہ میں یہاں لوگوں پر ہونے والا ظلم برداشت نہیں کرپایا اسی لیے میں اس راستے پر چل پڑا۔

ثقلین کی اپنی ماں سے ہونے والی مختصر بات چیت آڈیو کلپ کی صورت میں سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوچکی ہے، جس میں انہیں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے:

ماں: ثقلین، میرے جگر کے ٹکڑے، کیا ہوا ہے آپ کے ساتھ؟

ثقلین: ماں، میں فوجی محاصرے میں پھنس گیا ہوں۔  

ماں: کوئی بات نہیں، اللہ تمہاری مدد کرے گا۔ جس کام کے لیے نکلے ہو وہ پورا کرنا۔ خودسپردگی اختیار نہ کرنا۔

ثقلین: ہم چار ساتھی ہیں، ہمارے پاس چار بندوقیں ہیں۔ ہم ان (فوج) کا بہت نقصان کریں گے۔

ماں: واہ میرے لعل۔ میری جان تمہارے اس منہ پر قربان ہوجائے، جس کام کے لیے نکلے ہو اللہ سے دعا مانگو اس میں کامیابی مل جائے۔

ثقلین: ماں آپ مجھ سے راضی رہنا۔

ماں: تم سے میں بھی اور میرا خدا بھی راضی ہے۔ اللہ تمہیں اپنے مقصد میں کامیاب کرے۔ 

پھر طرفین کے درمیان جھڑپ ہوتی ہے۔ ثقلین اور ان کے دیگر تین ساتھی مارے جاتے ہیں جبکہ فوج یا سکیورٹی فورسز کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوتا ہے۔

ثقلین کی بے نشان قبر

افتخارنے بتایا کہ 'ہم نے ثقلین کے مارے جانے کی خبر ملتے ہی اپنے علاقے کے ایک متعلقہ پولیس افسر سے بات کی، جنہوں نے ہمیں بتایا کہ آپ کو شیری بارہمولہ پہنچنا ہوگا جس کے لیے آپ کو ضلع مجسٹریٹ کے دفتر سے اجازت نامہ حاصل کرنا ہے۔

'ضلع مجسٹریٹ کے دفتر سے اجازت نامہ حاصل کرنے کے بعد میں، میرے والدین اور بہن شیری بارہمولہ پہنچے۔ وہاں ہمیں لاش کی شناخت کے لیے ایک ایک کر کے بلایا گیا۔ ہم نے نماز جنازہ اچھے سے ادا کی جس کے بعد ثقلین کو وہاں غیر ملکی عسکریت پسندوں کے لیے مخصوص قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔'

افتخار کے آنکھوں دیکھے مشاہدے کے مطابق شیری بارہمولہ کے اس قبرستان میں قریب 350 عسکریت پسند مدفون ہیں، ان میں سے 250 ایسے ہیں جو غیر ملکی بتائے جارہے ہیں۔ اس قبرستان میں اب تھوڑی ہی جگہ بچی ہے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا آپ نے پولیس سے ثقلین کی لاش نہیں مانگی تو ان کا کہنا تھا: 'ہم نے ان سے لاش نہیں مانگی کیونکہ ہمیں پتہ تھا کہ ہماری درخواست کا کوئی حل نہیں نکلے گا۔ ثقلین نے ہمیں فون پر بتایا کہ آپ جنید صحرائی کے والد اشرف صحرائی (چیئرمین تحریک حریت) کی طرف دیکھنا۔ جنید کی طرح میری لاش بھی آپ کے حوالے نہیں کی جائے گی۔'

افتخار نے بتایا کہ چونکہ شیری بارہمولہ ضلع شوپیاں سے بہت دور ہے اس لیے وہ وہاں آٹھ جون کے بعد دوبارہ نہیں جا سکے۔

'جس دن ثقلین گھر سے نکلا تھا اس کے بعد ہماری اس سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ ہمیں امید تھی کہ ہم اسے اپنے آبائی قبرستان میں دفنائیں گے، فاتحہ خوانی کا اہتمام کرتے رہیں گے لیکن ہمیں اس سے محروم کیا گیا ہے۔ ہمیں اس بات کا بہت افسوس ہے کہ ہم ان کی قبر پر بھی جا نہیں پاتے۔

'قبر کی شناخت کے لیے کتبے نصب کرنے کی بات چھوڑیں وہاں تو پتھر بھی رکھنے نہیں دیا جاتا ہے۔ وہاں جتنی بھی لاشیں ہیں وہ بے نشان ہیں۔ اگر ہم وہاں جانا چاہیں گے تو ہمیں وہاں پہنچ کر پولیس سے پہلے اجازت حاصل کرنی ہے۔ اس کے بعد پولیس کے کچھ اہلکار ساتھ آئیں گے۔ قبرستان کے اندر داخل ہونے سے پہلے کپڑوں کو چھوڑ کر باقی تمام چیزیں پولیس کے حوالے کرنی ہوتی ہیں۔'

افتخار نے مزید بتایا کہ ثقلین کی ہلاکت کے اگلے روز یعنیٰ نو جون کو فوج ہماری گھر پر آئی اور ان کی تمام چیزیں بشمول تعلیمی اسناد اور کپڑے ساتھ لے گئی۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزی

ادھر کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں سینئر پولیس افسران کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کی احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے مقامی عسکریت پسندوں کی لاشیں ان کے آبائی قبرستانوں کی بجائے شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ یا وسطی کشمیر کے گاندربل میں غیر ملکی یا عدم شناخت عسکریت پسندوں کے لیے مخصوص قبرستانوں میں دفنائی جاتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق ایسا کرنا بھارتی و بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور لاشیں نہ دینے کے پیچھے یہ مقصد کارفرما ہے کہ لوگ جمع ہوں اور نہ احتجاج ہو۔

انسانی حقوق کے معروف کارکن و وکیل پرویز امروز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'عسکریت پسندوں کی لاشیں ان کے لواحقین کے حوالے نہ کرنا بھارتی اور بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ جب دو ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے تو وہ بھی لاشوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ ہم نے یہاں بھی دیکھا جب سرحدوں پر بھارت یا پاکستان کے فوجی مرے تو ان کی لاشیں اپنے ملک بھیجی گئیں۔

'یہاں ان کا کہنا ہے کہ لوگ جمع ہوتے ہیں اور احتجاج ہوتا ہے۔ عسکریت پسندی کی شہرت ہوتی ہے، لیکن یہ لاشیں لواحقین کے حوالے نہ کرنے کا قابل قبول جواز نہیں، یہ لواحقین کے حقوق کی پامالی ہے۔'

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ بھارتی سکیورٹی ادارے یہاں کرونا وبا کے دوران عسکریت پسندی ختم کرنا چاہتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا: 'ہم نے نوے کی دہائی سے سکیورٹی اداروں کو زندہ عسکریت پسندوں کی گنتی میں مصروف دیکھا ہے۔ کئی بار یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ہم یہاں عسکریت پسندی ختم کرنے کے بالکل قریب ہیں لیکن ہمیں تو ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔

'جب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم عسکریت پسندی ختم کرنے کے بالکل قریب ہیں تو ان سے بھی سوالات پوچھے جاسکتے ہیں کہ پھر کیوں یہاں ہر سڑک اور گلی میں اتنی زیادہ فوج ہے۔ اب جن 69 عسکریت پسندوں کو کرونا لاک ڈاؤن کے دوران مارا گیا، ان میں تو اکثر کشمیری تھے۔'

پرویز کے مطابق سکیورٹی اداروں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کشمیری عوام سڑکوں پر نہیں آنی چاہیے اور احتجاجی مظاہرے نہیں ہونے چاہییں لیکن یہ حقیقت کہ 'کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے' کو بدلا نہیں جاسکتا ہے۔

'کسی بھی جگہ تنازع ہوتا ہے تو وہاں مختلف طرح کے مراحل آتے ہیں۔ 2008 سے پہلے لگنے لگا تھا کہ اب صورتحال بالکل نارمل ہے، لیکن پھر 2008 میں امرناتھ اراضی تنازع۔ 2010، 2016 اور 2019 میں مختلف وجوہات پر احتجاجی تحریکیں بھڑک اٹھیں۔'

کشمیر افغانستان نہیں ہے

کشمیر یونیورسٹی میں زیر تعلیم جنوبی ضلع شوپیاں کے ایک طالب علم نے نام نہ ظاہر کرنے کی خواہش پر بتایا کہ اکثر مقامی نوجوان ظلم ہوتے دیکھ کر ہی بندوقیں اٹھاتے ہیں۔ 'کسی میں ظلم برداشت کرنے کی قوت ہوتی ہے کسی میں نہیں ہوتی۔ جن میں برداشت کی قوت کم ہوتی ہے وہ جذبات میں آکر بندوقیں اٹھاتے ہیں۔

'حال ہی میں ہمارے ضلع شوپیاں کے ایک نوجوان کا آڈیو بیان سامنے آیا جس میں وہ کہتا ہے کہ پولیس کے مسلسل ٹارچر اور زیادتیوں کی وجہ سے ہی اس نے بندوق اٹھائی ہے'۔

طالب علم کے مطابق اکثر کشمیری عسکریت پسند جذباتی مگر غیر تربیت یافتہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ فوجی آپریشنز کے دوران دیر تک لڑ نہیں پاتے۔

وہ مزید کہتے ہیں: 'کشمیر افغانستان نہیں ہے۔ وہاں طالبان کے اپنے علاقے ہیں۔ وہ بہ آسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں۔ ان کے پاس ٹرانسپورٹ کے اپنے ذرائع ہیں۔ ان کی باضابطہ ٹریننگ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس کشمیری عسکریت پسند ہر وقت فوج کے ریڈار پر ہوتے ہیں۔ ان کو بہت کم سپیس ملتی ہے کیونکہ چپے چپے پر فوجی بنکر اور کیمپ قائم ہیں۔'

عسکریت پسندوں کی ہلاکتیں

ضلع شوپیاں میں گذشتہ ہفتے تین مختلف فوجی آپریشنز میں 14 مقامی عسکریت پنسدوں اور نزدیکی ضلع کولگام میں ہفتے کو ہونے والے تصادم میں دو مقامی عسکریت پسندوں کی ہلاکت کے ساتھ کشمیر میں رواں برس مارے جانے والے عسکریت پسندوں کی تعداد بڑھ کر 100 ہوگئی ہے۔

ان میں سے قریب 70 عسکریت پسند کرونا وائرس لاک ڈاؤن، جو یہاں 17 مارچ کو لگایا گیا، کے دوران مارے گیے ہیں۔ ان میں بعض اعلیٰ عسکریت پسند کمانڈر جیسے ریاض نائیکو اور جنید صحرائی بھی شامل ہیں۔

رواں سال اب تک فوجی آپریشنز کے دوران درجنوں رہائشی مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں جبکہ جزوی نقصان کھانے والے مکانات کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔

کشمیر میں کرونا لاک ڈاؤن کے دوران عسکریت پسند مخالف آپریشنز میں تیزی لانے کا بظاہر مقصد یہ ہے کہ ہلاک شدہ عسکریت پسندوں کے جنازوں پر جلوس نہیں ہوں گے تو عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت کا رجحان بھی ختم ہوگا لیکن اس کے برعکس ہوا۔

بھارتی نیوز چینل 'انڈیا ٹوڈے' کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس آٹھ جون تک 43 کشمیری نوجوانوں نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے اور اس میں نمایاں اضافہ مئی اور جون کے دوران دیکھا گیا۔

ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شوپیاں اور کولگام اضلاع میں گذشتہ ہفتے مارے جانے والے 16 میں سے کم از کم 10 عسکریت پسندوں نے رواں سال کے دوران ہی یہ راستہ اختیار کیا تھا۔ ایک عسکریت پسند وہ بھی تھا جس نے محض دو دن قبل شمولیت اختیار کی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ مقامی عسکریت پسندوں کو اسلحے کی شدید قلت کا سامنا ہے کیونکہ بعض جگہوں پر فوجی آپریشنز کے اختتام پر بندوقوں سے زیادہ عسکریت پسندوں کی لاشیں دیکھی گئیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا