فوجی عدالتوں کی سزائیں معطل، 200 ملزمان کی رہائی کا حکم

ملزمان کے وکیل علی گوہر نے بتایا کہ 'ملزمان کی جانب سے اپیلیں اس لیے دائر کی گئی تھی کیونکہ فوجی عدالتوں کی طرف سے  ان کو سزائیں دینے میں قانونی راستہ نہیں اپنایا گیا تھا۔'  

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ  نے پیر کو فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ تقریباً تین سو ملزمان کی اپیلوں پر سماعت کی

پشاور ہائی کورٹ کے  دو رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں کی جانب سے دہشت گردی کے مختلف واقعات میں ملوث دو سو ملزمان کی سزائیں معطل کر کے ان کی رہائی کا حکم دیا ہے۔

ان ملزمان میں سزائے موت، عمر قید، پانچ سال کی سزا اور دس سال تک قید کی سزا والے ملزمان شامل تھے جن پر ملک میں مختلف جگہوں پر دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات تھے۔

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ (جس میں جسٹس نعیم انور شامل تھے) نے پیر کو فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ تقریباً تین سو ملزمان کی اپیلوں پر سماعت کی۔

ملزمان کی جانب سے ان کے وکلا پیش ہوئے جب کہ ڈپٹی ایڈوکیٹ جنرل حکومت کی طرف سے جب کہ ملٹری کی جانب سے ان کا نمائدہ عدالت میں پیش ہوا۔

ان ملزمان کے وکلا کی ٹیم میں شامل پشاور ہائی کورٹ کے وکیل علی گوہر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نومبر 2018  میں ان سزاؤں کو پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے معطل کیا گیا تھا تاہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

علی گوہر نے بتایا کہ اپیل دائر ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے سزاؤں کی معطلی پر عمل درآمد روک دیا اور  پشاور ہائی کورٹ کو حکم دے دیا کہ سزاؤں کے خلاف اپیلوں کو دوبارہ دیکھا جائے اور حکومت سمیت کیس میں دیگر فریقین کو سننے کا موقع دیا جائے۔

علی گوہر نے بتایا کہ 'ملزمان کی جانب سے اپیلیں اس لیے دائر کی گئی تھی کیونکہ فوجی عدالتوں کی طرف سے  ان کو سزائیں دینے میں قانونی راستہ نہیں اپنایا گیا تھا۔'  

'جیسا کہ یہ ملزمان پانچ سے دس سال تک زیر حراست تھے لیکن اتنے سالوں میں ان سے اقبال جرم کا بیان نہیں لیا گیا تھا جبکہ جس سال سزا ہوئی ہے اسی سال ان کے اقبال جرم کے بیانات عدالت میں پیش کیے گئے ہیں۔'

علی گوہر نے بتایا 'فوجی عدالتوں کے فیصلوں میں دیگر بھی بہت پیچیدگیاں تھیں جیسا کہ ان ملزمان میں زیادہ تر ناخواندہ تھے اور پشتو بولنے والے تھے لیکن ان کو پنجاب کے وکلا  دیے گئے  اور ملزمان میں بہت ایسے تھے کہ ان کو اردو سمجھنا بھی نہیں آتی تھی۔'

انھوں نے بتایا کہ انہی اپیلوں کے بارے میں مارچ 2019 میں صوبائی اور وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ کو ان سزاؤں کے خلاف اپیلوں کی سماعت سے روکا جائے تاہم سپریم کورٹ کی طرف سے  بتایا گیا تھا کہ قانونی طور پر سپریم کورٹ ایسا نہیں کر سکتا۔

علی گوہر نے مزید بتایا کہ  پاکستان کےآئین میں ملزم کو شفاف عدالتی ٹرائل کا مکمل اختیار دیا گیا ہے۔ چاہے ملزم کتنا ہی بڑا دہشت گرد کیوں نہ ہوں لیکن ان کو سزا دینے میں قانونی راستہ اختیار کیا جائے گا اور آج عدالت  نے ریمارکس میں بھی یہ بتایا کہ چونکہ سزاؤں میں قانونی راستہ اختیار نہیں کیا گیا ہے اور حکومت اور دیگر فریقین کو بہت وقت بھی دیا گیا کہ وہ ثبوت لائیں لیکن وہ نہ ہو سکا اس لیے ان سزاؤں کو عدالت کی جانب سے معطل کیا گیا۔

عدالت کی جانب سے ان 300  ملزمان کی اپیلوں پر سماعت  اور فیصلہ آج سنایا گیا جبکہ دیگر 100  اپیلوں  پر ریکارڈ کی عدم دستیابی کی وجہ سے فیصلہ   نہ ہو سکا اور ان  کے کیسز میں عدالت نے وزارت دفاع سے ریکارڈ طلب کر لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کی سابق وفاقی حکومت نے آرمی پبلک سکول کے سانحے کے بعد 11 فوجی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ملزمان کی ٖمقدمے تیزی سے سنے جا سکیں۔

اس مقصد کے لیے قومی اسمبلی سے اکیسویں ترمیم منظور کی گئی اور ملٹری ایکٹ میں ترمیم کے بعد فوجی عدالتوں کا دائرہ اختیار عام لوگوں تک بڑھایا گیا۔

پہلے فوجی عدالتیں دو برس کے لیے بنائی گئی تھیں لیکن 2017 میں ان عدالتوں کو مزید دو برس تک دوبارہ توسیع دے دی گئی۔

قانون دانوں کے بین الاقوامی کمیشن (آئی سی جے ) نے پاکستان میں فوجی عدالتوں کے قیام پر جنوری 2019  میں ایک مفصل رپورٹ بھی جاری کیا تھا  جس میں اس تنظیم  نے پاکستان میں قائم فوجی عدالتوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ ان عدالتوں کے فیصلوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔

اسی رپورٹ میں پشاور ہائی کورٹ کے 2018 کے فیصلے جس میں فوجی عدالتوں کے 70  ملزمان کی سزائیں معطل کی تھی کا حوالہ بھی دیا گیا تھا کہ کس طرح فوجی عدالتوں کے فیصلوں میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جاتے ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے ان ملزمان کی سزائیں اسی لیے معطل کی تھیں کیونکہ فیصلوں میں انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا اور اس میں بین الاقوامی عدالتی قوانین کی بھی خلاف ورزی کی گئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق فوجی عدالتوں کے ان فیصلوں میں تقریبا تمام ملزمان کے ایک جیسےاعتراف جرم والے بیانات ریکارڈ کیے گئے ہیں، جب کہ ملزمان کو صرف ایک نجی وکیل مہیا کیا گیا تھا۔

 رپورٹ کے مطابق ملزمان کو اپنے خاندان، وکیل یا کسی بھی باہر کے شخص سے ملنے نہیں دیا گیا تھا۔ 'فیصلے میں یہ بھی واضح نہیں تھا کہ یہ ملزمان کب، کس وقت اور کس جرم میں پکڑے گئے تھے۔'

رپورٹ کے مطابق 'ملزمان سے اعتراف جرم کے بیانات ان کی گرفتاری کے کئی برس بعد ریکارڈ کیے گئے تھے جب کہ سارے بیانات کا رسم الخط بھی ایک جیسا پایا گیا۔'

فوجی عدالتوں کی طرف سے تاحال دی گئی سزاؤں کی تعداد

آ ئی سی جےکی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی فوجی عدالتوں نے جنوری 2019 تک 646 مقدمات میں 641 ملزمان کو سزائیں دی ہیں جن میں ممکنہ طور پر بچے بھی شامل ہیں۔ ان مقدمات میں سزا پانے والے ملزمان کا تناسب 99.2 فیصد ہے۔

ان میں سے 345 کو سزائے موت اور 296 کو قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں جبکہ پانچ ملزمان کو بری کر دیا گیا ہے۔سزائے موت پانے والے مجرمان میں سے 56 کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان