فوجی عدالتوں کی مدت ختم، حکومت اب کیا سوچ رہی ہے؟

فوجی عدالتیں اب بھی ملک کی ضرورت ہیں لیکن توسیع صرف اُسی وقت ہوگی جب تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوں گی - وزیر اطلاعات فواد چوہدری

فوجی عدالتیں  پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد 2015 میں   دو سال کے لیے  قائم کی گئی تھیں۔فائل تصویر : اے ایف پی

پاکستان میں دہشت گردی کے مقدمات کے ٹرائل کے لیے قائم کی گئی فوجی عدالتوں کی دو سالہ آئینی مدت گذشتہ روز یعنی 31 مارچ کو ختم ہوگئی۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت ان عدالتوں کو مزید توسیع دینے کی خواہش مند ہے، لیکن سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس پر کچھ تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔

تاہم وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے واضح کیا ہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع صرف اُسی وقت ہوگی جب تمام سیاسی جماعتیں اس پر متفق ہوں گی۔

16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد 2015 میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت پاکستان میں دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔

بعدازاں مارچ 2017 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 23 ویں آئینی ترمیم کے تحت ان کی مدت میں دو سال کی توسیع کردی تھی اور اب حکومت کو ان عدالتوں کی مدت میں مزید توسیع کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ درپیش ہے۔

اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا: ’حکومت فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کرے گی اور اگر اس پر اتفاقِ رائے ہوتا ہے تو فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع ہو گی۔ اگر باقی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اب توسیع کی ضرورت نہیں ہے تو یہ توسیع نہیں ہو گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم دہشت گردی کو مکمل شکست دینے کے بہت قریب ہیں اور سمجھتے ہیں کہ فوجی عدالتیں اب بھی ملک کی ضرورت ہیں، لیکن اس کے لیے اتفاق رائے ہونا ضروری ہے۔

فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لیے مشاورت کی غرض سے حکومت نے گزشتہ ماہ 28 مارچ کو اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس بھی طلب کیا تھا، تاہم اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باعث یہ اجلاس منسوخ کردیا گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) 2017 میں بھی فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی مخالف تھی، تاہم بعد میں اس نے متعلقہ شق کی حمایت کی تھی۔ رواں برس جنوری میں بھی پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی زیر صدارت ہونے والے ایک اجلاس کے بعد سابق وزیراعظم اور سینئر رہنما یوسف رضا گیلانی نے میڈیا بریفنگ میں بتایا تھا کہ پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کی توسیع کی مخالفت کرے گی۔

دوسری جانب سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے گذشتہ ہفتے اپنے ایک بیان میں اعتراض اٹھایا تھا کہ 2015 اور 2017 میں تو حالات کے پیش نظر فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں لیکن اب حکومت کو چاہیے کہ وہ ان عدالتوں کی مدت میں مزید توسیع کی ضرورت کے حوالے سے پارلیمنٹ کو مطمئن کرے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ’ملٹری کورٹس فوج کی خواہش نہیں بلکہ ملک کی ضرورت ہیں۔‘

رواں برس جنوری میں ایک نجی نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا کہ گزشتہ 4 سال کے دوران فوجی عدالتوں میں 717 مقدمات آئے جن میں سے 646 کیسز کو منطقی انجام تک پہنچایا گیا۔ جبکہ ان عدالتوں کی جانب سے 345 مجرمان کو سزائے موت بھی سنائی گئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان