ضلع خیبر میں باب خیبر کے مقام پر سات اضلاع سے مختلف قبائلی مشران، خاصہ دار و لیویز فورس اور عام عوام کی جانب سے پولیو مہم کے خلاف احتجاج سامنے آیا ہے جس کی اصل وجہ پولیو ویکسین سے دشمنی نہیں بلکہ کچھ اور بتائی جا رہی ہے۔
یہ احتجاج ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب رواں سال پاکستان کے چند دیگر شہروں کے علاوہ قبائلی علاقوں خیبر اور باجوڑ میں بھی دو پولیو کیسز سامنے آئے ہیں۔
پولیو ایک ایسا وائرس ہے، جس کا نہ صرف دوسرے بچوں میں پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے بلکہ دوسرے ممالک اس سے بچنے کے لیے پاکستان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اس وائرس کی بیخ کنی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے 97 ہائی رسک اضلاع میں پانچ دنوں پر محیط پولیو مہم کا آغاز ہو گیا ہے، جس کو اس مرتبہ قبائلی اضلاع میں پورا کرنا مشکل نظر آ رہا ہے۔
مقامی صحافی ابو ذر آفریدی کے مطابق خاصہ دار اور لیویز فورس نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اپنے 22 نکاتی ایجنڈے کو حکومت کے سامنے رکھ دیا ہے۔
’یہ لوگ پچھلے 15 دن سے باب خیبر کے مقام پر احتجاج کر رہے ہیں لیکن حکومت ان کی ایک بھی نہیں سن رہی۔ پولیو کے قطروں کی راہ میں رکاوٹ ڈال کر یہ لوگ اپنے مطالبات منوانا چاہتے ہیں۔ اس احتجاج میں فاٹا گرینڈ الائنس کے مشران نے شامل ہو کر احتجاج کرنے والوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے بلکہ اس ضمن میں کوکی خیل قبیلے کے سربراہان نے اعلان کیا ہے کہ خاصہ دار یا لیویز میں سے جس کسی نے بھی حکومت کی طرفداری کی یا ان کا ساتھ دیا تو ایسے شخص پر 50 لاکھ کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے احتجاج کی جگہ پر موجود کوکی خیل قبیلے کے ملک اسرار اللہ خان سے بھی اس بابت بات کی کہ آخر ان کا احتجاج کس بات پر ہے اور وہ حکومت سے کیا مطالبہ کر رہے ہیں، جس پر ان کا کہنا تھا کہ دراصل اس احتجاج کا تعلق انضمام سے شروع ہوتا ہے۔ اس وقت بڑے بڑے وعدے اور دعوے کیے گئے لیکن حکومت نے ابھی تک ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔
انھوں نے بتایا: ’میرے لوگوں کے حالات پہلے سے بدتر ہو گئے ہیں۔ اگر ہمیں ڈپٹی کمشنر کے ماتحت ہی رکھنا تھا تو اس سے اچھا ہمارے لیے پولیٹیکل ایجنٹ کا نظام تھا۔ حکومت نے انضمام کے وقت سے لے کر بڑے بڑے اعلانات کیے ہیں، جیسا کہ این ایف سی میں تین فیصد حصہ دیا جائے گا، اتنے کھرب ترقیاتی فنڈز کے لیے مختص کیے جائیں گے، اتنے لیویز اور خاصہ دار فورس بھرتی کیے جائیں گے وغیرہ وغیرہ، لیکن اب ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان کے پاس پیسے نہیں ہیں اور یہ بھی کہ خاصہ دار و لیویز پولیس میں ضم ہونے کے لیے ناموزوں ہیں۔‘
’لہذا ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو تب تک قطرے نہیں پلائیں گے جب تک ہماری بات نہیں مانی جاتی۔‘
احتجاج کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر خاصہ دار اور لیویز کو پولیس میں ضم نہیں کیا جاتا تو وہ تھانوں کی تعمیر کی بھی مخالفت کریں گے۔ کیونکہ ان کے بقول باہر کے لوگ قبائلی اضلاع کے کلچر کو نہیں سمجھ سکتے۔
اس حوالے سے خاصہ دار فورس کے صوبیدار 41 سالہ ملک مظہر آفریدی نے بتایا کہ تقریباً 70 سال خاصہ داروں نے اس ملک کا ساتھ دیا، اپنے اسلحے سے پاکستان کے لیے کٹھن مرحلوں میں گولی چلائی بھی اور جانوں کی قربانیاں بھی دیں، اس تمام تر کے بدلے میں ہمیں حکومت تین
ساڑھے تین لاکھ کا گولڈن ہینڈ شیک دینا چاہتی ہے۔ جو ہمیں نامنظور ہے۔
ملک اظہر نے مزید بتایا کہ ’جس وقت سخت حالات تھے اور کوئی بھی نہیں تھا تو فوج کے ساتھ ہم شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ اس وقت کسی نے نہیں کہا کہ ہم ناموزوں ہیں۔ منگل باغ نے ہمارے لوگوں کو اسی بات پر ذبح کیا کہ ہم کیوں پاکستان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لیکن ہم نے رتی برابر
پرواہ نہیں کی۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ خاصہ دار پولیسنگ کے اہل نہیں ہیں تو ذرا پشاور کے کسی علاقے کے تھانے کا ریکارڈ چیک کر لیں اور فاٹا کا۔ ہمارے علاقوں میں انہیں جرائم کی شرح بہت کم ملے گی۔ وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے علاقے سے بخوبی واقف ہیں، ہمیں معلوم ہوتا ہے کون
مجرم ہے اور کون معصوم۔ ہمیں پتہ ہوتا ہے کس گھر میں گھسنا ہے اور کس گھر کا تقدس پامال ہونے سے بچانا ہے-‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’خاصہ داروں میں پڑھے لکھے لوگ بھی ہیں لیکن حقیقت تو یہ بھی ہے کہ پولیس میں بھی بہت ان پڑھ لوگ موجود ہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری نوکریوں میں عمر کی حد 60 سال ہے، جن خاصہ دار و لیویز اہلکاروں کی عمر 60 سال سے تجاوز کر گئی ہے، ان
کے بیٹوں کو بھرتی کیا جائے۔‘