شامی فوج کی فتح، داعش کی ’خلافت‘ کا آخری برج تباہ

پچھلے ہفتے شام کی کرد فورسز نے داعش کے آخری برج باغوز، پر قبضہ کر کے ہزاروں انتہا پسندوں کو نکال کر شام میں داعش کی تقریباً پانچ سالہ ’خلافت‘ کے خاتمے کا علان کر دیا تھا۔

ایس ڈی ایف کے جنگجو داعش کو شکست دینے کے بعد باغوز میں ایک گھر کی چھت پر اپنا جھنڈا لہراتے ہوئے۔ تصویر: اے ایف پی

شام میں پچھلے ہفتے داعش کے آخری بچے برج، باغوز، میں شکست کے بعد اس دہشت گرد تنظیم کا یورپ میں نئے دہشت گرد حملوں کا منصوبہ سامنے آگیا ہے۔

ایک جھڑپ میں ہلاک ہونے والے داعش کے جنگجوؤں سے برآمد ہونے والی ایک ہارڈ ڈرائیو میں ڈاکیومنٹز ملی جس میں یورپ میں حملوں کا انتظام کرنے، اسلحہ فراہم کرنے اور مالی امداد کرنے کے لیے محکمہ قائم کرنے کی تجویز تھی۔       

دی سنڈے ٹائمز کو ملنے والے ایک خط کے مطابق خود کو ابو طاہر التاجک کہنے والے ایک شدت پسند نے داعش کے مقامی لیڈروں کو لکھا کہ ’وہ ایسے لوگوں سے رابطے میں ہے جو خلافت سے دور علاقوں میں کام کرنا اہتے ہیں۔‘  

ایک نیا ادارہ قائم کرنے کی اجازت مانگتے ہوئے اس نے لکھا: ’آپریشن کرنے سے پہلے اگر رابطہ محفوظ ہوا تو وہ ہمیں ٹارگٹ بتا دیں گے۔ نہیں تو وہ  آپریشن  پورا کر دیں گے۔‘

دوسرے خطوط میں اسی شخص نے شام میں داعش کے لیڈروں کے بتائے ٹارگٹ کو سلیپر سیلز کے ذریعے قتل کرنے اور داعش کے سابقہ علاقوں میں قتل عام اور بم دھماکے کرنے کی آفر بھی دی۔

ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا یہ تجاویز داعش کے لیڈروں کو ملی ہیں یا نہیں۔

پچھلے ہفتے شام کی کرد فورسز نے داعش کے آخری برج باغوز، پر قبضہ کر کے ہزاروں انتہا پسندوں کو نکال کر شام میں داعش کی تقریباً پانچ سالہ ’خلافت‘ کے خاتمے کا علان کر دیا تھا۔

امریکی حمایت یافیہ سیرین ڈیموکریٹک (ایس ڈی ایف) فورسز نے 23 مارچ کو اپنا زرد جھنڈا دریا کنارے واقع باغوز گاوں میں نصب کیا جسے کئی ملکوں سے آئے داعش کے انتہا پسند ایک عرصے سے اپنا گڑھ بنائے ہوئے تھے۔ 

 

ایس ڈی ایف کو یہ فتح داعش کی بچی کچی ’خلافت‘ کے خلاف چھ ماہ طویل آپریشن کے بعد حاصل ہوئی۔ کچھ سال پہلے عراق اور شام کا ایک بڑا رقبہ داعش کے قبضے میں تھا اور کوئی 70 لاکھ لوگ اس کے زیر انتظام علاقے میں، لیکن امریکی اور شامی اتحادی فوجوں کے مسلسل آپریشنز میں یہ قبضہ کم ہوتا گیا اور پچھلے کچھ مہینوں سے داعش کے جنگجو باغوز میں مورچہ زن تھے۔  

ایس ڈی ایف کے ترجمان مصطفیٰ بالی نے ایک علانیے میں کہا: ’سیرین ڈیموکریٹک فورسز اس نام نہاد خلافت کے مکمل خاتمے اور داعش کی 100 فیصد زمینی شکست کا علان کرتی ہے۔‘

عالمی لیڈروں نے اس فتح کو داعش اور اس کے نظریے کے خلاف ایک اہم جیت قرار دیا لیکن ساتھ ساتھ خبردار بھی کیا کہ عالمی سطح پر دہشت گرد حملوں کو جنم دینے والے اس گروہ کا ابھی پوری طرح خاتمہ نہیں ہوا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس خبر پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ’چوکنا رہنے‘ کا عہد کیا کیونکہ داعش کے خلاف امریکی سرپرستی میں قائم فوجی اتحاد کے مطابق یہ ’لڑائی ابھی جاری ہے۔‘  

ہفتے کو ایس ڈی ایف کے زیر استعمال العمر تیل کے میدان میں فورس کے اہلکاروں نے ہتھیار پھینکتے ہوئے خوشی میں جشن منایا۔    

اس جیت کو منانے کے لیے اہلکاروں نے اعلی کرد اور عرب قبائلی افسران سمیت ایک امریکی سفیر کے ساتھ مل کر ایک تقریب میں بھی شرکت کی جس میں جنگ میں مارے جانے والے ان کے ساتھیوں کے اعزاز میں یاد گار کی نقاب کشائی ہوئی۔

2014 میں سربراہ ابوبکر البغدادی کے ہاتھوں قائم کی گئی داعش کی ریاست 2017 میں بکھرنے لگی جب اتحادی افواج نے عراق اور شام میں اس سے موصل اور رقہ کے اہم مراکز واپس لینے کے لیے متوازی حملے شروع کیے۔

اس زمانے کے شدت پسند گروہ سے ہونے والی پانچ سالہ طویل جنگ میں کئی بڑے شہر تباہ اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔

فوجی حملوں کے نتیجے میں داعش کے قبضے میں زمین کم ہوتی گئی اور ستمبر 2018 میں ایس ڈی ایف نے فرات وادی میں باقی بچی ’خلافت‘ کے خلاف آخری آپریشن شروع کیا۔

پچھلے ہفتے ایس ڈی ایف نے داعش کے ان جنگجووں کو بھی باہر نکال دیا جو باغوز میں خیمہ زن تھے اور تب سے چھپے ہوئے باقی بچنے والوں کو فرات کے کنارے سے ڈھونڈ رہے ہیں۔  

21 سالہ کرد جنگجو حشام ہارون نے اے ایف پی کو بتایا: ’ زیادہ دیر تک قائم رہنے والے زیادہ تر غیر ملکی تھے جو مراکش تونس، مصر سے تھے۔‘   

حشام ہارون کے آس پاس شدت پسندوں کے کیمپ کی باقیات میں گولیوں سے چھلنی ٹرک، غیر استعمال شدہ خود کش بیلٹیں اور ’خلافت‘ کے خاندانوں کے  زیر استعمال پھٹے ٹینٹ پڑے تھے اور کچھ مشتبہ داعش جنگجووں کی لاشیں بھی تھیں۔   

برطانیہ میں واقع سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اس لڑائی میں 630 شہری، 750 ایس ڈی ایف کے جنگجو اور تقریباً 16 سو شدت پسند ہلاک ہوئے۔  

جہاں ایس ڈی ایف فورسز نے داعش پر زمینی حملہ کیا وہیں امریکی لڑاکا طیاروں نے بھی باغوز پر بڑے پے لوڈ گرائے اور ہزاروں لوگوں کو جان بچا کر بھاگنے پر مجبور کیا۔  

کئی ہفتوں تک لوگ اس محصور گاوں سے نکلتے رہے، کبھی بھوکے تو کبھی زخمی مگر داعش کی حمایت پرزور کرتے رہے۔

چھوٹے سے گاوں باغوز سے اتنی تعداد میں نکلنے والے لوگوں کو دیکھ کر کرد افسران اور امدادی ادارے بھی حیران رہ گئے۔  

ایس ڈی ایف اور غیر ملکی انٹیلیجنس نے جنوری سے اب تک 60 ہزار سے زائد لوگوں کو ریکارڈ کیا ہے جس میں دس فیصد شدت پسند ہیں جو خود کو ان کے حوالے کر رہے ہیں۔

 

العمر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایس ڈی ایف کے اعلی کمانڈر مظلوم کوبانی نے کہا کہ داعش کے خلاف آپریشن میں یہ ایک نیا موڑ ہے۔  

امریکہ نے شام سے اپنی فوج واپس بلانے کا فیصلہ لیا ہے لیکن کوبانی نےسلیپر سیل کو ختم کرنے کے لیے فوجی اتحادی مدد جاری رکھنے کی اپیل کی جو ’ہمارے خطے اور پوری دنیا کو خطرہ ہیں۔‘  

اتحادی فورسز کے کمانڈر لیوٹیننٹ جنرل پول لاکمیرہ نے کہا: ’یہ وقت آرام کرنے کا نہیں۔ داعش اپنی فورس کو بچا رہی ہے۔ اس نے سوچ سمجھ کر اپنے بچے لوگوں کو کیمپوں میں جگہ بنا دی ہے یا چھپنے کا حکم دے دیا ہے۔ وہ بس واپس آنے کے لیے صحیح وقت کے انتظار میں ہے۔‘   
ویسٹ پائنٹ میں ماڈرن وار انسٹیٹیوٹ کے جون سپینسر نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جغرافیائی طور پر تو داعش ختم ہوگئی ہوگی لیکن اس کے ساتھ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا: ’داعش ایک دہشتگرد گروہ ہے۔ بچنے کے لیے اسے صرف ہتھیار پھینکنے ہیں اور لوگوں میں گھل مل جانا ہے۔ وہ گئے نہیں اور نہ ہی جائیں گے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا