’لوگ طلاق یافتہ کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں‘

ہمارے ہاں مرد تو ایک نہیں، دو نہیں بلکہ چار شادیاں کر سکتا ہے اور کرتا ہے لیکن اگر ایک عورت دوسری شادی بھی کرے تو ہمارا معاشرہ عمومی طور پر عورت کے اس نیک کام کو بھی اچھا نہیں سمجھتا۔

ہمارے ہاں مرد تو ایک نہیں، دو نہیں بلکہ چار شادیاں کر سکتا ہے اور کرتا ہے لیکن اگر ایک عورت دوسری شادی بھی کرے تو ہمارا معاشرہ عمومی طور پر عورت کے اس نیک کام کو بھی اچھا نہیں سمجھتا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ایک عورت کی اگر پہلی شادی کسی بھی وجہ سے ناکام ہو جائے تو وہ  دوسری شادی کا سوچ بھی نہیں سکتی اور اگر وہ حالات کی زد میں آ کر دوسری شادی کر بھی لے تو ساری زندگی اسے پہلی شادی کی ناکامی، طلاق یافتہ کا طعنہ ملتا رہتا ہے۔

تاہم ملتان میں ایک ایسی خاتون بھی ہیں جنہوں نے ایک نہیں دو نہیں تین شادیاں کیں اور تینوں بار انہیں طلاق کا کاغذ تمھایا گیا، یہ سوچے بنا کہ صنف نازک اس اذیت سے اس کرب سے خود کو کیسے بچائے گی۔۔۔کس کس کو اپنی بے گناہی کا یقین دلائے گی۔

ایک لڑکی محبت اور اس کے وجود سے بے خبر اپنے طریقے سے زندگی گزار رہی ہوتی ہے پھر اچانک سے اس کی زندگی میں کوئی آتا ہے، اس کا ہاتھ تھامتا ہے، اس کے راستے میں کہکشاں بٹھاتا ہے، اس پہ اپنی جان لٹاتا ہے اور پھر جب لڑکی کے دل کی بنجر زمین میں محبت کی کونپیلں پھوٹنے لگتی ہیں تو وہ شخص اچانک سے منہ پھیر لیتا ہے اور کوئی بھی وجہ بنا کر طلاق کا ’دھبہ‘ لگا دیتا ہے اور کسی بھی لڑکی کے لیے یہ ہوتی ہے تکلیف، یہ ہوتی ہے اذیت، یہ ہوتا ہے ٹوٹنا۔

ایسا ہی کچھ ملتان کی سعدیہ (فرضی نام ) جو اس وقت اپنی عمر کے تقریباً 50 سال گزار چکی ہے جس کی پہلی شادی 1999 میں والدین کی پسند سے ملتان کے نواحی گاؤں میں ہوئی تاہم اولاد نہ ہونے کی وجہ سے پانچ سال بعد طلاق ہوگئی اور وہ دو سال اپنے والدین کی چوکھٹ پر بیٹھی یہ سوچتی رہی کہ اولاد کا پیدا ہونا نہ ہونا کیا اس کے اختیار میں تھا۔

سعدیہ کے مطابق ان پر دوسری شادی کے لیے دباؤ ڈالا گیا لیکن وہ ذہنی طور پر تیار ہی نہیں تھیں کہ زندگی میں اچانک پھر سے کسی اور مرد کو شامل کر سکیں۔

 

ایسا ہی کچھ ملتان کی سعدیہ (فرضی نام ) جو اس وقت اپنی عمر کے تقریباً 50 سال گزار چکی ہے جس کی پہلی شادی 1999 میں والدین کی پسند سے ملتان کے نواحی گاؤں میں ہوئی تاہم اولاد نہ ہونے کی وجہ سے پانچ سال بعد طلاق ہوگئی اور وہ دو سال اپنے والدین کی چوکھٹ پر بیٹھی یہ سوچتی رہی کہ اولاد کا پیدا ہونا نہ ہونا کیا اس کے اختیار میں تھا۔

سعدیہ کے مطابق ان پر دوسری شادی کے لیے دباؤ ڈالا گیا لیکن وہ ذہنی طور پر تیار ہی نہیں تھیں کہ زندگی میں اچانک پھر سے کسی اور مرد کو شامل کر سکیں۔

’آخرکار دو سال بعد ایک بار میں پھر دلہن بنی اور میری شادی چار بچوں کے باپ سے ہوئی۔ ان کی والدہ ابنارمل تھی اور ایک بیٹا بھی لیکن میں ان کا خیال رکھتی خدمت کرتی اور اس گھر میں اور اس گھر کے مکینوں کے دلوں میں جگہ بنا ہی رہی تھی کہ میری نند جو بڑی چاہ کے ساتھ مجھے بیاہ کر لے گئی تھیں وہی میری دوسری طلاق کی وجہ بن گئیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اس مرتبہ طلاق کی وجہ بھتیجے بھتیجوں کو دور کرنے اور جادو ٹونے کا الزام بنا، اور یہ شادی صرف آٹھ ماہ بعد ہی ختم ہوگئی۔

اس کے بعد بڑے دھکے کھائے جگہ جگہ نوکری کی لیکن ہمارے معاشرے میں طلاق کے بعد عورت کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے یہ صرف پہلے سنا کرتی تھی اور اب خود یہ سب سہہ رہی تھی۔

’لوگ طلاق یافتہ کو پبلک پراپرٹی سمجھتے ہیں میں ڈورتی رہی نوکریاں چھوڑتی رہی لیکن ہر گزرتا دن پہلے سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا۔‘

سعدیہ کے مطابق سات سال بعد والد کی وفات ہو گئی اس کے بعد زندگی اور مشکل ہوگئی۔

’والدہ نے کہا کہ میں خود بیوہ ہو گئی ہوں تمھارا ایک ہی بھائی ہے وہ کب تک تمھارا ساتھ دے گا، برادری والے بھائی بہنوں نے شادی کرنے پر اسرار کیا اور اس طرح تیسری بار میرا نکاح کر دیا گیا اور میں ملک سے باہر چلی گئی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سعدیہ کہتی ہیں کہ وہاں جا کر پتہ چلا کہ جس سے ان کی شادی ہوئی ہے اس کے پہلے سے بیوی بچے ہیں اور ان کے ساتھ کسی قسم کے اختلافات نہیں ہیں صرف شادی کرنے کے لیے یہ ’ڈرامہ‘ کیا گیا تھا۔

’عام طور پر ایسی شادیوں کا جو انجام ہوتا ہے وہی میرا ہوا اور میرے شوہر نے اپنی پہلی بیوی اور بچوں کے دباؤ میں آ کر مجھے طلاق دے دی اور طلاق بھی اس طرح دی کہ وہ میرے ساتھ پاکستان آیا یہاں کافی دن میرے ساتھ رہا پھر جب وہ واپس جانے لگا تو میرا سارا سامان اور زیور وغیرہ بھی لے گیا اور کہا کہ جاتے ہی ویزہ بھجوا دوں گا اور آپ آ جانا۔‘

سعدیہ نے بتایا کہ ایک دن ان کے بھائی کو ان کی کال آئی اور کہا کہ میں سعدیہ کا ویزہ بھجوا رہا ہوں وہ لے لیجیے گا اور جب وہ آیا اور ہم نے کھول کے دیکھا تو وہ طلاق نامہ تھا۔

 ’اس کے بعد میرے لیے تو سب کچھ ختم ہو گیا۔ میں نفسیاتی مریض بن گئی، جی تو رہی ہوں اور ایک اچھی جگہ پر ملازمت بھی کر رہی ہوں لیکن اب نہ مجھے مرد ذات پر بھروسہ رہا اور نہ ہی عورتوں پر یقین ہے۔ جب ایک عورت کو طلاق ہوتی ہے تو صرف گھر ختم نہیں ہوتا بلکہ عورت ختم ہو جاتی ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی