’غصے یا نشے میں نہیں تو پھر کس حالت میں طلاق موثر ہوگی؟‘

خیبرپختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے مسلم فیملی ایکٹ1961 میں فقہ جعفریہ کے حوالے سے ترمیمی بل اعتراضات کی وجہ سے منظور نہ ہو سکا، جسے اب اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا جائے گا۔

خیبرپختونخوا اسمبلی کا ایک منظر (فائل تصویر: اے ایف پی)

خیبر پختونخوا اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی جانب سے مسلم فیملی ایکٹ1961 میں فقہ جعفریہ کے حوالے سے ترامیم کو منگل کے روز اسمبلی اجلاس میں پیش کیا گیا جس میں ایک ترمیم مذاقاً، غصے یا نشے کے حالت میں طلاق دینے سے متعلق تھی، تاہم یہ ترمیمی بل اعتراضات کی وجہ سے  منظور نہ ہو سکا اور اسے اب اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا جائے گا۔

یہ ترمیمی بل وزیر برائے بلدیات شہرام خان ترکئی کی جانب سے پیش کیا گیا تھا، جس میں مسلم فیملی ایکٹ1961  کے آرڈیننس آٹھ کی شق سات میں ترمیم کی گئی تھی کہ غصے، نشے، پاگل پن یا جبر میں طلاق غیر موثر ہوگی، تاہم ترمیم میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ طلاق واقع ہونے کے حوالے سے اگر تجویز کردہ ترمیم میں اختلاف آجائے تو مجاز عدالت یا مجتہد عالم کے فیصلے کو حکم کی حیثیت حاصل ہوگی۔

ترمیم میں مجتہد عالم کی تشریح اس طرح کی گئی ہے کہ وہ مذہبی سکالر یا شیعہ مسلک کا کوئی ڈاکٹر جو بین الاقوامی شہرت یافتہ یا تسلیم شدہ ہو۔

بل پیش کرنے والے رکن صوبائی اسمبلی شہرام ترکئی نے اسمبلی کو بتایا کہ تجویز کردہ ترامیم اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے منظوری کے بعد ہی اسمبلی میں پیش کی گئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بل پیش کرنے کی دلیل میں لکھا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 227 کے تحت کسی بھی مسلمان فرقے کے ذاتی قانون سے متعلق قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرکے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ تجویز کردہ ترمیمی بل کے مطابق شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کا یہ مطالبہ ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں ان کے لیے طلاق کا قانون بنایا جائے اور یہی وجہ ہے کہ اس ترمیمی بل کو پیش کیا جا رہا ہے۔

بل پر اعتراض اٹھانے والی جمعیت علمائے اسلام کی رکن صوبائی اسمبلی نعیمہ کشور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ طلاق کے حوالے سے حکومت کی جانب سے اس طرح کی ترمیم سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ اگر طلاق غصے یا نشے میں واقع نہیں ہوگی تو پھر کس حالت میں موثر ہوگی۔

نعیمہ کشور نے بتایا: ’پاگل پن یا جبر میں طلاق غیر موثر ہونے کا تو جواز بن سکتا ہے لیکن نشے یا غصے میں طلاق کیسے واقع نہیں ہوگی؟ اس سے تو پھر بہتر ہے کہ حکومت طلاق ہی کو ختم کردے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اسلام اور دیگر مذاہب میں بھی طلاق کے حوالے سے احکامات موجود ہیں اور اس بل میں یہ بھی لکھا گیا کہ اگر طلاق کے حوالے سے اختلاف پیدا ہوجائے کہ یہ واقع ہوئی ہے یا نہیں تو عالم دین سے رجوع کیا جائے۔ 

کیا غصے یا نشے  میں طلاق واقع ہو سکتی ہے؟

مولانا ڈاکٹر شمس الحق حنیف اسلامی مذہبی سکالر اور شرعی معاملات پر مختلف لیکچرز دیتے ہیں۔ انہوں نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ غصے یا حالتِ جبر میں طلاق واقع ہو جاتی ہے کیونکہ ظاہر سی بات ہے کہ محبت اور پیار میں کوئی طلاق نہیں دے سکتا اور یہی وجہ کے صحابہ، تابعین یا تبع تابعین کے مابین اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

انہوں نے بے ہوشی کی حالت میں طلاق دیے جانے کے بارے میں بتایا کہ اگر کوئی بندہ کسی بھی وجہ سے بے ہوش ہوجاتا ہے اور یہ نشے کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے اور وہ ہوش کی معطلی کی وجہ سے اس حالت میں طلاق دے، تو وہ واقع نہیں ہوتی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی شخص نے شراب، چرس یا کسی اور چیز کا نشہ کر رکھا ہے، لیکن وہ بے ہوش نہیں ہے تو اس حالت میں طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

ڈاکٹر شمس الحق حنیف نے بتایا کہ امام مالک کا قول ہے کہ اگر کسی نے نشے کی حالت میں طلاق دے دی تو طلاق واقع ہو جاتی ہے اور اگر نشے میں کسی کو قتل کیا تو قصاص واقع ہو جاتا ہے اور اس کو قتل کی سزا ہوگی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان