کشمیر کی حاملہ خواتین کرونا کا شکار کیسے ہو رہی ہیں؟

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں اب تک پونے چار سو کے قریب ایسی حاملہ خواتین کرونا سے متاثر ہوچکی ہیں جن کی زچگی قریب تھی اور کم از کم دو حاملہ خواتین موت کے منہ میں بھی جاچکی ہیں۔

بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے نواحی علاقے رعناواری کی 28 سالہ بلقیس اور ان کے اہل خانہ بے صبری سے اس دن کا انتظار کر رہے تھے جب ایک ننھے منے بچے کی کلکاریاں ان کے گھر میں گونجتیں لیکن آج اس گھر کے سبھی مکین پریشان ہیں کیونکہ بلقیس کو ڈاکٹروں نے کرونا (کرونا) سے متاثرہ قرار دے کر نامزد کووڈ ہسپتال میں داخل کردیا ہے۔

بلقیس خود ہسپتال میں اب زچگی کا انتظار کر رہی ہیں جبکہ ان کے اہل خانہ پریشانی کے عالم میں اس خوش خبری کے منتظر ہیں جو پہلی بار ان کے در پر دستک دینے والی ہے۔

یونیورسٹی میں زیر تعلیم بلقیس کے چھوٹے بھائی آصف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'ہماری بہن صحیح سلامت تھی۔ کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا۔زچگی قریب تھی اور ہمیں آج کل ہر ہفتے انہیں طبی معائنے کے لیے ہسپتال لے جانا پڑ رہا تھا۔'

 آصف نے مزید بتایا کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا لیکن جب زچگی کی خاطر ہسپتال میں داخلے کے لیے لازمی قرار دیے گئے کرونا ٹیسٹ کرنے کی باری آئی تو سب کچھ الٹ پلٹ ہوگیا۔کرونا ٹیسٹ کی رپورٹ مثبت آئی جس کے فوراً بعد بلقیس کو نامزد کووڈ ہسپتال منتقل کیا گیا اور ہمیں بھی قرنطینہ کیا گیا۔ ہمارے ٹیسٹ منفی آئے لیکن ہماری بہن ہسپتال میں داخل ہے حالانکہ اس میں کرونا کی کوئی علامت نہیں ہیں۔'

 آصف پریشان ہیں کہ ان کی بہن کو کیسے کرونا لاحق ہوگیا جبکہ وہ کبھی ہسپتال جانے کے علاوہ گھر سے باہر بھی نہیں نکلیں اور نہ ہی ان کے کسی اہل خانہ کی کوئی سفری تفصیل ہے۔

حاملہ خواتین پر کرونا کا قہر کیوں؟

یہ صرف بلقیس کی ہی کہانی نہیں ہے بلکہ کشمیر میں آج کل حاملہ خواتین کا کرونا سے متاثر ہونا معمول بن چکا ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اب تک پونے چار سو کے قریب ایسی حاملہ خواتین کرونا سے متاثر ہوچکی ہیں جن کی زچگی قریب تھی اور یہ سبھی خواتین اس وقت کووڈ مریضوں کے لیے مخصوص ہسپتالوں میں داخل ہیں جبکہ کم از کم دو خواتین اس دوران مبینہ طبی لاپرواہی کی وجہ سے بطن میں پلنے والے بچوں سمیت موت کی آغوش میں چلی گئیں۔

صورت حال کی سنگینی کا یہ عالم ہے کہ حکام کو ضلعی سطح پر صرف کرونا سے متاثرہ حاملہ حواتین کی زچگیوں کے لیے ہسپتال مخصوص کرنے پڑ رہے ہیں۔

مریض سرکار سے خفا

سرکاری اعداد وشمار کا جب باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ کرونا سے متاثرہ حاملہ خواتین کا تعلق اگرچہ کشمیر کے سبھی اضلاع سے ہے تاہم ان میں اکثریت دیہی اضلاع کی ہے۔

سری نگر سے دو سو کلومیٹر دور صوبہ جموں کے دور افتادہ پہاڑی ضلع ڈوڈہ کے ایک رہائشی اشتیاق احمد ملک نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اہلیہ بھی حاملہ ہے اور اس سلسلے میں انہیں دو روز ڈسٹرکٹ ہسپتال ڈوڈہ میں گزارنے پڑے۔

ملک اشتیاق کہتے ہیں کہ ان دو دنوں کے دوران انہیں جن تلخ تجربات سے گزرنا پڑا، وہ بیان کرنا مشکل ہے۔ 'کہنے کو تو سماجی دوری کے اصول پر بہت زیادہ زور جارہا ہے اور ہسپتال کے باہر آپ کو لگے گا کہ شاید اس پر عمل بھی ہو رہا ہے لیکن ہسپتالوں کے اندر کی کہانی کچھ اور ہی ہی ہے۔ ہسپتال کے اندر فاصلہ رکھنے کا کوئی رواج نہیں ہے اور نہ ہی مریضوں کی کوئی درجہ بندی کی گئی ہے ۔ حاملہ خواتین اور دیگر مریض ایک ساتھ ہوتے ہیں اور ہسپتال کے وارڈوں سے لے کر الٹراسونو گرافی لیب اور تشخیصی لیبارٹریوں تک سب کچھ خلط ملط ہے۔'

انہوں نے بتایا کہ 'اہلیہ کی الٹراسونو گرافی کرانے کے لیے مجھے پانچ گھنٹے انتظار کرنا پڑا اور اس دوران وہاں سماجی دوری کا کوئی خیال نہیں رکھا جارہا تھا۔'

سری نگر سے ہی 70 کلومیٹر دو جنوبی ضلع اننت ناگ میں حالیہ ایام میں ایسے دو واقعات پیش آئے جب کرونا سے متاثرہ حاملہ خواتین ہسپتالوں میں طبی عملے کی مبینہ لاپرواہی سے دم توڑ گئیں۔ ایسی ہی ایک خاتون اننت ناگ میں قائم زچہ و بچہ ہسپتال میں فوت ہوئیں۔

مذکورہ خاتون کے قریبی رشتے دار عبدالستار نے کہا کہ کرونا کی آڑ میں ہسپتال میں بیماروں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ان کی بیٹی کی موت واقع ہوگئی۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی بچی کو کرونا کے بہانے پہلے ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال منتقل کیاگیا اور پھر جب اس کی حالت غیر ہوگئی اور وہ دم توڑ گئی تو انہیں کرونا وائرس کی دھمکی دے کر یہ کہہ کر چپ کرانے کی کوشش کی گئی کہ انہیں لاش بھی نہیں مل سکتی ہے۔

اننت ناگ میں انتقال کرجانے والی ایک حاملہ خاتون کے رشتے دار ان کی میت سٹریچر پر ڈال کر لے جارہے ہیں (سکرین گریب)


سرکار اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں

حکام کا ماننا ہے کہ اس تشویش ناک رجحان میں کافی حد تک خود خواتین ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ رہنما ہدایات پر عمل نہیں کر رہی ہیں۔ گورنمنٹ میڈیکل کالج میں کمیونٹی میڈیسن شعبے کے سربراہ اور پروفیسر ڈاکٹر سلیم خان، جو میڈیکل کالج سے منسلک شہر کے سات بڑے ہسپتالوں کے لیے کووڈ 19 کے ترجمان بھی ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چونکہ بیشتر حاملہ خواتین نو مہینے گھروں سے باہر نہیں جاتی ہیں تو غالب امکان یہی ہے کہ انہیں اپنے ہی گھروں میں ایسے لوگوں سے یہ وائرس لگا ہوگا جو ان کے رابطے میں آئے ہوں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہناتھا کہ کشمیر میں بیشتر حاملہ خواتین کو خون کی کمی کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔ ان کا مدافعتی نظام بھی مستحکم نہیں ہوتا ہے جس کے باعث وہ ایسی بیماریوں کا آسان شکار بن جاتی ہیں۔ تاہم ڈاکٹر سلیم خان مانتے ہیں کہ زچگی سے پہلے سے زچہ و بچہ کی طبی جانچ کی خاطر ہسپتالوں میں گھنٹوں تک انتظار کی وجہ سے بھی حاملہ خواتین کا کرونا وائرس سے متاثر ہونا خارج از امکان قرار نہیں دیاجاسکتا ہے۔

محکمہ صحت میں تعینات کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ڈاکٹر رخشندہ کا موقف بھی اس سے بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں: 'حاملہ خواتین میں کرونا کے بڑھتے ہوئے کیسز میں ان کی اپنی لاپروائی کا ہاتھ ہے کیونکہ وہ مسلسل ہسپتالوں کے چکر کاٹ رہی ہیں اور وہاں کووڈ 19کے لیے وضع کی گئی احتیاطی تدابیر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سماجی دوری کا خیال نہیں رکھ رہی ہیں۔'

سرکاری دلیل بے تُکی؟

صحت و طبی تعلیم سے جڑے معاملات پر قریبی نگاہ رکھنے والے وادی کشمیر کے نوجوان صحافی اور سری نگر سے شائع ہونے والے کثیر الاشاعت اردو روزنامہ ' کشمیر عظمیٰ' کے صحت کے شعبے کے نامہ نگار پرویز احمد سرکاری دلیل ماننے کو تیار نہیں ہیں۔وہ کہتے ہیں: 'اگر مان لیا جائے کہ حاملہ خواتین ہسپتالوں میں کرونا کا شکار ہوجاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے سرکاری و نجی ہسپتالوں اور کلینکوں میں کووڈ 19 سے بچاؤ کی رہنما ہدایات پرعمل درآمد نہیں کیا جارہا ہے۔'

پرویز کا کہناتھا کہ اگر ہسپتالوں میں سماجی دوری کے اصول پر عمل نہیں ہو رہا ہے تو اس کے لیے کیسے حاملہ خواتین کو ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے بلکہ اس کے لیے ہسپتال انتظامیہ کی جوابدہی ہونی چاہیے۔

پرویز احمد کے مطابق حاملہ خواتین کا کرونا سے متاثر ہونا سنگین مسئلہ ہے کیونکہ یہ دو زندگیوں کے لیے خطرہ بنتا ہے اور زچہ و بچہ کی زندگی پر غیر یقینی کے بادل منڈلانے لگتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب تک کم از کم چھ نوزائیدہ بچوں میں کرونا وائرس کی تشخیص ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ سرکار کی لاپروائی سے ہم نہ چاہتے ہوئے بھی ان بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگا رہے ہیں جنہیں معلوم بھی نہیں ہوتا ہے کہ وہ کس کے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔

 انہوں نے مزید کہا کہ 'حاملہ خواتین کے علاج و معالجے اور زچگی کے لیے خصوصی انتظامات کیے جانے چاہییں کیونکہ ابھی مستقبل قریب میں کرونا کہیں جانے والا نہیں ہے۔'

ہیلتھ کیئر ورکروں کے ذریعے کرونا وائرس کی منتقلی کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا (سکرین گریب)


ماہرین کے نزدیک رجحان خطرے کی گھنٹی

 گورنمنٹ میڈیکل کالج سری نگر میں بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر تعینات انفلوئنزا ایکسپرٹ ڈاکٹر نثار الحسن اس ضمن میں کہتے ہیں: 'اگر کرونا سے متاثرہ حاملہ خواتین کی کوئی ٹریول ہسٹری نہیں ہے اور نہ ہی ان کے گھر یا محلے میں کوئی باہر سے آیا ہے اور نہ کرونا کا کوئی کیس ہے تو یہ معاملہ سنگین بن جاتا ہے۔'

ان کا مزید کہنا تھا: 'ایسی حاملہ خواتین، جن کے زچگی کے ایام قریب ہوتے ہیں، ان کا علاج آن لائن یا ٹیلی میڈیسن کے ذریعے ممکن نہیں ہے اور انہیں مجبوراً طبی وتشخیصی مراکز کا رخ کرنا پڑ رہا ہے۔'

ڈاکٹر نثار کا استدلال ہے کہ کرونا سے متاثرہ حاملہ خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد ویسے پریشانی کا باعث نہیں ہے کیونکہ یہ دراصل ماس ٹیسٹنگ کا نتیجہ ہے جو حاملہ خواتین کے لیے لازمی قرار دی گئی ہے، تاہم وہ بھی مانتے ہیں کہ بیشتر خواتین ہسپتالوں اور نجی کلینکوں و لیبارٹریوں میں کرونا سے متاثر ہو رہی ہیں کیونکہ وہاں کووڈ 19 کے پروٹوکول پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ خود ہیلتھ کیئر ورکروں کے ذریعے کرونا وائرس کی منتقلی کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس طرح کے بہت سارے معاملات سامنے آئے جہاں یہ وائرس طبی و نیم طبی عملے سے ہی مریضوں میں منتقل ہوا ہے۔

ڈاکٹر نثار نے کہا کہ جہاں فوری طور پر حاملہ خواتین کے علاج و معالجے اور طبی معائنے کے لیے علیحدہ انتظامات کرنے کی ضرورت ہے وہیں ہسپتالوں میں انفیکشن کنٹرول کا نظام مزید مستحکم کرنا ناگزیر بن چکا ہے جبکہ اس کے علاوہ طبی و نیم طبی عملے کی جانب سےبھی کووڈ پروٹوکول پر 100 فیصد عمل درآمد یقینی بنایا جانا چاہیے۔

خیال رہے کہ جموں وکشمیر میں کرونا متاثرین کی تعداد پانچ ہزار کا ہندسہ عبور کرچکی ہےاور ان میں بیشتر ایسے ہیں جن کی کوئی سفری تفصیل نہیں ہے جس سے طبی ماہرین یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ کشمیر میں کرونا وائرس کمیونٹی ٹرانسفر کے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے تاہم حکومت تاحال اسے ماننے سے منکر ہی نظر آرہی ہے، جو معاملے کی ذرا سی بھی سدھ بدھ رکھنے والوں کے لیے حیرانی اور پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر سرکار یہ ماننے کو ہی تیار نہیں کہ کرونا کمیونٹی میں داخل ہوچکا ہے تواس سے نمٹنے کی پالیسی میں ہی سقم رہے گا اور یوں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین