باکمال لوگ، لاجواب سروس کے ساتھ ہوا کیا؟ 

یہ تحریر آپ کو قومی ایئر لائن کے عروج و زوال کا قصہ دل فگار سنائے گی اور آپ جان پائیں گے کہ ارض وطن کے قیمتی اثاثوں کو کس طرح ذاتی اغراض اور سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔

بحرانوں میں گھری قومی فضائی کمپنی کا ایک  طیارہ لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر لینڈنگ کرنے جارہا ہے۔ (اے ایف پی)

قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کی دکھ بھری کہانی کا آغاز پہلے اچھے دن یاد کرکے کر لیتے ہیں۔

ورنہ ہمیں جو دکھ تھے، بہت لادوا نہ تھے

عروج

پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز بانی وطن قائد اعظم محمد علی جناح کے حکم پر تشکیل دی گئی تھی۔ اس کام کا آغاز پاکستان بننے سے پہلے 1946 میں ہی ہو گیا تھا۔ یہ اس قائد کا وژن تھا جس نے اپنی قوم کے لیے جس وقت الگ ملک کی ضرورت محسوس کی، اسی وقت قومی ایئرلائن پر بھی کام شروع کر دیا۔

شفا یوسفزئی کا یہ کالم آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں:

 

اس کے پائلٹ عبداللہ بیگ صاحب کا کارنامہ تھا کہ انہوں نے چھ گھنٹے 43 منٹ میں لندن تا کراچی پرواز مکمل کر کے ایک نیا عالمی ریکارڈ بنایا تھا۔

کمیونزم کے دائرے سے باہر پی آئی اے دنیا کی واحد ایئر لائن تھی جو چین بھی جایا کرتی تھی اور براستہ ماسکو، یورپ و ایشیا تک کی منزلیں بھی طے کیا کرتی تھی۔

دنیا بھر میں پی آئی اے ہی وہ پہلی ایئرلائن تھی جس نے جہازوں کے اندر فلموں کا وہ سلسلہ متعارف کرایا تھا جسے آج ہم اِن فلائیٹ انٹرٹینمنٹ کہتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد اگر دنیا نے ہمارے لوگوں، ہماری ثقافت اور ہمارے ملک کے بارے میں جانا تو اس میں ایک بڑا کردار پی آئی اے اور ان جہازوں کا تھا جن پر پاکستان کا پرچم بنا ہوا تھا۔ یہ جہاز ہماری پہچان بن کر فضاؤں میں اڑا کرتے تھے۔

زوال

پھر زوال کا آغاز ہوا جو کسی طور رک نہ پایا اور صورت حال اس قدر ابتر ہوتی چلی گئی کہ پی آئی اے کے باعث ہمارا قومی خزانہ روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 10 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان اٹھاتا ہے، اسے سالانہ بنیادوں پر دیکھا جائے تو تقریباً 36 ارب روپے سے زائد کی خطیر رقم بنتی ہے۔

یوں تو پی آئی اے گوناگوں مسائل میں گھری ہوئی ہے لیکن ایک بڑی مصیبت اس کے ملازمین کی فوج ظفر موج ہے جو 15 ہزار مستقل اور تقریباً چار ہزار ڈیلی ویجرز پر مشتمل ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جہاں ایئر کینیڈا سمیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی بڑی بڑی ایئرلائنز نے تقریباً 20 ہزار ملازمین کو کرونا (کورونا) کے لاک ڈاؤن کے باعث نکالا وہیں ہم جیسے ترقی پزیر ملک میں ایک ملازم بھی فارغ نہیں کیا گیا۔ شاید اسی وجہ سے وہ اقوام ترقی یافتہ کہلائی جاتی ہیں۔

ایک وقت میں پی آئی اے کے پاس 64  جہاز تھے اور اب یہ تعداد 30 یا 32  تک آن پہنچی ہے۔ اس میں بھی کئی پرواز کے قابل نہیں ہیں، اس لیے گراؤنڈ کیے ہوئے ہیں۔

2008 میں پی آئی اے کا خسارہ 72 ارب روپے تھا جو 2017 تک بڑھ کر 360 ارب ہو گیا۔ پچھلے 10 سالوں میں 4700 سے زائد بھرتیاں کی گئیں۔ دوسری طرف مفتاح اسماعیل جیسے وزرا یہ کہتے رہے کہ ہم اس ادارے کو ٹھیک نہیں کر سکتے، اس لیے جو سٹیل مل خریدے گا اسے پی آئی اے مفت دے دیں گے۔

اوپن سکائیز پالیسی

پی آئی اے کے زوال کی ایک اور وجہ ہماری اوپن سکائی پالیسی بھی رہی ہے جس کے مطابق دوسرے ممالک کی ایئرلائنز پاکستان کے کسی بھی ہوائی اڈے پر اپنی پروازیں بھیج سکتی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں اوپن سکائی پالیسی زیادہ کامیاب نہیں۔ بھارت میں محدود اوپن سکائی پالیسی ہے یعنی ہندوستان کے ہر ہوائی اڈے پر باہر کے ممالک کے جہاز لینڈ نہیں کرسکتے۔ اسی طرح ترکی میں بھی باہر کے جہازوں کا داخلہ صرف استنبول اور انقرہ جیسے بڑے شہروں اور ہوائی اڈوں تک محدود ہے۔ یہاں سے اگر کسی اور شہر جانا ہو تو ترکی کے اندر کام کرنے والی کمپنیوں کی پرواز ہی لی جا سکتی ہے۔

اس کے برعکس پاکستان میں پشاور، کوئٹہ، سیالکوٹ، فیصل آباد، لاہور، کراچی اور ملتان سمیت کئی شہروں میں دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں کی پروازیں اترتی ہیں۔ اوپن سکائی پالیسی مکمل طور پر بند کرنا اس کا حل نہیں ہے کیونکہ اس سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچے گا لیکن باہر کی کمپنیوں کی پروازیں کم از کم صرف تین چار بڑے شہروں تک محدود کر دینی چاہییں۔ اس کے بعد اگر کسی نے رحیم یار خان، بہاول پور یا حیدرآباد جانا ہے تو وہ پاکستان کے اندر کی ایئرلائنز میں سفر کریں۔ اس سے پاکستان کی ایوی ایشن کی صنعت کو فائدہ ہو گا۔

سیاسی مداخلت

پی آئی اے کا خسارہ صرف اس لیے نہیں ہوتا کہ اسے مسافر نہیں ملتے بلکہ اس کی وجہ ملازمین کی بڑی بڑی تنخواہیں اور ادارے کے غیر ضروری اخراجات ہیں۔ پی آئی اے میں ملازمین کی اتنی بڑی فوج ہے جسے اگر آدھا بھی کر دیا جائے تو تعداد شاید تب بھی ادارے کی ضرورت سے زیادہ ہی ہوگی۔

سیاسی بھرتیوں کے ساتھ ساتھ نااہلی کا بھی ایک بازار گرم ہے جس کا ذکر حال ہی میں وزیر ہوا بازی غلام سرور نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں کیا جب انہوں نے پی آئی اے حادثے کی رپورٹ قوم کے سامنے لانے کے بعد اس بات کا اعلان کیا کہ پی آئی اے میں 40 فیصد پائلٹوں کے پاس جعلی لائسنس ہیں۔

اس ادارے میں سیاسی مداخلت کا یہ عالم تھا کہ پی آئی اے کی انتظامیہ کے مطابق انہیں ایک مرتبہ 727 جہازوں کی ضرورت تھی لیکن عین وقت پر راتوں رات فیصلہ بدل دیا گیا اور برطانیہ سے ایسے جہاز خرید لیے گئے جنہیں بعد میں بیچنا پڑا۔ ایسے بے شمار واقعات آپ کو پی آئی اے انتظامیہ سنا سکتی ہے۔

پھر ایک دور ایسا آیا جب برنڈ ہلڈن برینڈ نام کے سی ای او بھی باہر سے امپورٹ کیے گئے۔2017  میں صدائیں بلند ہونے لگیں کہ پی آئی اے کا ایک جہاز غائب ہے۔ اللہ کی پناہ۔ جہاز نہ ہو گیا کوئی سیفٹی پن ہوگئی جو کھو جائے اور معلوم نہ پڑے کہ کہاں گئی۔ بعد ازاں پتہ چلا کہ جہاز کسی برطانوی کمپنی کو چارٹر کر دیا گیا ہے اور وہ مالٹا میں تھا جہاں سے وہ جرمنی پہنچا حالانکہ انتظامیہ کے مطابق وہ جہاز پہلے ہی اپنی معیاد پوری کرکے پاکستان میں گراؤنڈ کر دیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس واقعے پر ذہن میں سوالات کا بھونچال برپا ہو جاتا ہے کہ اگر جہاز اپنی معیاد پوری کر چکا تھا تو پھر اڑا کیسے؟ کس کے کہنے پر یہ چمتکار ہوا؟ کاغذوں میں گراؤنڈ ہو جانے والا یہ طلسماتی قالین نما جہاز مالٹا کیسے جا پہنچا؟ اس قومی جرم کے نتیجے میں کس کی جیبیں بھری گئیں؟ خیر، سارا مدعا جرمنی سے امپورٹ کیے گئے پی آئی اے کے سی ای او پر ڈال دیا گیا اور انہیں کرپشن کے الزامات پر ای سی ایل پر ڈال دیا گیا۔

اس واقعے کے بعد پھر وہی ہوا جو ای سی ایل پر موجود زیادہ تر لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے، یعنی وہ جرمنی بھاگ گئے اور آج تک واپس نہیں آئے۔ ایف آئی اے کے ذرائع کے مطابق وہ جہاز 45000 یورو میں جرمنی میں ہی بیچ دیا گیا جبکہ اس کی بک ویلیو 31 لاکھ ڈالرز تھی۔

انہی وجوہات کی بنا پر اس سے پہلے کبھی جہازوں کے کریش ہونے کی کوئی رپورٹ عوام کے سامنے نہیں لائی گئی کہ اگر بات کھلتی تو پھر دور تلک جاتی۔

پی آئی اے کے ایک مشہور زمانہ پائلٹ سجاد گل بھی تھے، جن کی ذہنی صحت پی آئی اے کی جانب سے جہاز اڑانے کے لیے نامناسب قرار دی گئی مگر سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر ان کو بطور پائلٹ دوبارہ بحال کر دیا گیا۔

غلام سرور خان نے جب یہ اعلان کیا کی 40 فیصد پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں تو پاکستان کے اندر ایک محشر بپا ہو گیا کہ انہوں نے پاکستان اور قومی ادارے کی ساکھ کو عالمی دنیا کے سامنے ایک مذاق بنا دیا ہے لیکن سب نے ان کا یہ اعلان طاق نسیاں پر رکھ دیا کہ جعلی اور مشکوک ڈگریاں رکھنے والے تمام پائلٹس کو گراؤنڈ کر دیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ اس حادثے کے بعد سے شروع نہیں ہوا بلکہ دسمبر 2018 میں اور پھر جنوری 2019  میں بھی کئی پائلٹس کو انہی بنیادوں پر گراؤنڈ کیا گیا تھا۔

اگر پہلے بیان سے ساکھ کو نقصان ہوا تھا تو پھر کیا اس بیان سے ادارے اور ملک کی ساکھ بحال نہیں ہوئی؟ کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ پاکستان کسی صورت لوگوں کی جانیں خطرے میں نہیں ڈالے گا؟ اس بات کا فیصلہ آپ کریں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ