ایران نے صدر ٹرمپ کا وارنٹ گرفتاری جاری کیوں کیا؟

ایران کو بخوبی علم تھا کہ وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے گا تو پھر اس نے یہ قدم کیوں اٹھایا؟ کیا اس کے پیچھے داخلی سیاست ہے یا پھر امریکہ کی منافقت بے نقاب کرنا؟

صدر ٹرمپ نے جنوری میں جنرل سلیمانی اور دوسرے افراد کو بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ہلاک کرنے کا حکم دیا تھا (روئٹرز)

ایران کے پراسیکیوٹر علی القاسم مہر نے پیر کو بتایا  کہ ایرانی عدلیہ نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل پر امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے  انٹرپول سے مدد کی درخواست کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وارنٹ قتل اور دہشت گردی کے الزامات کے تحت جاری کیے گئے۔ نیشنل ایرانی امریکن کونسل میں سینیئر ریسرچ فیلو اسل ریڈ نے بتایا کہ دی انٹرنیشنل کرمینل پولیس آرگنائزیشن یا انٹرپول نے بعد ازاں ایرانی الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ 'سیاسی، فوجی، مذہبی یا نسلی نوعیت'کی سرگرمیوں کی ذمہ داری نہیں لیتا۔

ایران کی طرف سےٹرمپ کے وارنٹ گرفتاری کو زیادہ تر بڑے سیاسی قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور اس کے امریکی صدر کے لیے کسی قانونی مسائل کا امکان نہیں۔ تاہم اس اقدام نے بین الاقوامی اداروں کے کردار کو نمایاں ضرور کیا ہے اور اس پر سوالات اٹھائے ہیں۔

ایران بین الاقوامی نظام کو اسی طرح استعمال کر رہا ہے جس طرح امریکہ کرتا ہے۔ امریکہ کو جب مناسب  لگتا ہے وہ اپنی عالمی ذمہ داریوں اور قانون کو واضح انداز میں نظرانداز کرتا ہے لیکن جب وہ کسی کو اپنے'دشمن'خیال کرتے ہوئے اس کے خلاف کیس بنانے چاہتا ہے تو اپنے عمل کو جائز قرار دینے کے لیے یہی عالمی نظام استعمال کرتا ہے۔

ریڈ نے مزید کہا کہ اس صورت میں ایران کے اقدام کا زیادہ تر مقصد ردعمل پیدا کرنا اور امریکی منافقت کو نمایاں کرنا ہے، چاہے اس سے خود اس کی منافقت پر سوال کھڑا ہو جائے۔

صدر ٹرمپ نے جنوری میں جنرل سلیمانی اور دوسرے افراد کو بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ہلاک کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس اقدام کو کشیدگی میں بڑے اضافے کے سبب کے طور پر دیکھا گیا تھا جو ایران اور امریکہ جنگ کے دھانے پر لے آئی تھی۔

بعد میں ٹرمپ انتظامیہ نے کہا تھا کہ  قتل کا مقصد جنرل سلیمانی کی طرف سے ناگزیر حملوں کو روکنا تھا لیکن اس دعوے کے حق میں کوئی دلیل نہیں دی تھی۔ حالانکہ کانگریس میں ڈیموکریٹ قانون سازوں نے ایسا کرنے کی کئی بار درخواست کی تھی۔

انہوں نے اس قتل کو فوجی تصادم کی طرف اٹھایا جانے والا ایک غیرضروری قدم قرار دیتے ہوئے اس پر تنقید کی تھی۔

واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل کے ایک غیر مقیم فیلو نے بتایا: 'اگر خطرہ ناگزیر ہو اور کارروائی کیے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو حقیقت یہ ہے کہ قانونی اعتبار سے ملک کسی کو ہدف بنا کر ہلاک کرسکتے ہیں۔'

ازودی نے مزید کہا کہ تاہم ٹرمپ انتظامیہ ابھی تک کوئی معتبر شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی کہ سلیمانی واقعی ایک'ناگزیر'حملے کی تیاری کر رہے تھے لہٰذا انہیں ہلاک کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران نے بدلہ لینے کے عزم کا اعلان کیا تھا اوراس نے عراق میں اس فوجی اڈے پر میزائل داغ کر جوابی کارروائی کی جہاں امریکی فورسز موجود تھیں۔

ایران کے صدر حسن روحانی نے بھی مارچ میں کہا تھا کہ'امریکہ نے ہمارے عظیم جنرل کو قتل کر دیا اور ہم اس معاملے کو جانے نہیں دیں گے۔' ٹرمپ کی گرفتاری کے جاری ہونے والے وارنٹ اگرچہ سیاسی ہیں لیکن ان سے نہ بھولنے کا وہی عزم واضح ہوتا ہے۔

ماضی میں ایرانی حکام کو غیرملکی سفر کی صورت میں حوالگی کے وارنٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ارجنٹائن نے 1994 میں  اے ایم آئی اے (اسرائیل اورارجنٹائن کی مشترکہ ایسوسی ایشن) کی عمارت پر بم حملے میں سابق ایرانی وزیر خارجہ علی اکبرولائتی کے کردار پر ان کے اس وقت وارنٹ جاری کیے جب وہ سفر کر رہے تھے۔

ارجنٹائن کی جانب سے ایک اور وارنٹ کے بعد سابق وزیر دفاع احمد وحیدی کو ان کے بولیویا کے لیے سفر میں مداخلت کرنی پڑی۔

یونائیٹڈ اگینسٹ نیوکلیئر ایران کے پالیسی ڈائریکٹر جیسن بروڈسکی نے بتایا کہ اب ایران واضح طور پر امریکہ کے خلاف وہی ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ایران اور امریکہ کے درمیان چار دہائیوں کی دشمنی کے زیادہ ترپہلوؤں کو دیکھا جائے تو اس وارنٹ کا ایک داخلی سیاسی پہلو بھی ہے۔

سخت گیر افراد کے قبضے میں ایرانی عدلیہ نے وارنٹ گرفتاری میں آگے بڑھ کر کردار ادا کیا ہے۔ جب کہ اعتدال پسند صدر حسن روحانی کی ماتحتی میں ایرانی وزارت خارجہ اس معاملے میں خاموش ہے۔ ان دو حکومتی دھڑوں کے درمیان معاملہ کیا صورت اختیار کرتا ہے یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا