انڈین حکومت بدھ کو ملک بھر میں شہری دفاع کی مشق کرے گی تاکہ اپنی سرزمین پر ممکنہ حملے کی تیاری کا جائزہ لے سکے، کیوں کہ کشمیر میں دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان کے ساتھ سرحد پر فوجی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ 1971 کے بعد انڈیا کی سب سے بڑی شہری دفاع کی مشق ہو گی۔ یہ وہی سال ہے جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ ہوئی تھی جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش وجود میں آیا۔
انڈین ذرائع ابلاغ کے مطابق وزارت داخلہ نے کئی ریاستوں اور وفاقی علاقوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ فرضی مشقیں کریں تاکہ فضائی حملے کے سائرن، انخلا کے منصوبوں، اچانک بلیک آؤٹ اور کسی بھی حملے کی صورت میں عوام کی تربیت جیسے انتظامات کو جانچا جا سکے۔
وزارت داخلہ کے ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ روئٹرز کو بتایا کہ یہ مشقیں شہری سطح پر تیاری کو یقینی بنانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ تاہم ذرائع نے نہ پاکستان کا ذکر کیا اور نہ ہی کشمیر حملے کا۔
یہ قدم اس خونریز دہشت گرد حملے کے بعد اٹھایا جا رہا ہے جو 22 اپریل کو جموں و کشمیر میں کیا گیا اور اس کے نتیجے میں میں 26 لوگوں کی جان گئی۔ یہ خطے میں سیاحوں پر ہونے والے بدترین حملوں میں سے ایک تھا۔
نئی دہلی نے اسے دہشت گردی کی کارروائی قرار دیتے ہوئے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا۔ پاکستان نے واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
اس واقعے کے بعد انڈیا نے اسلام آباد کے ساتھ سفارتی اور دوطرفہ تعلقات کی سطح کم کر دی۔ اس حملے نے دونوں حریف ممالک کے درمیان مسلح تصادم کے خدشات کو جنم دیا جب کہ اتحادی ممالک اور اقوام متحدہ دونوں فریقوں سے تحمل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے انڈیا کی جانب سے ’جلد ہونے والے‘ حملے کے خدشے پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی کارروائی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول، سیکریٹری دفاع راجیش کمار سنگھ، اور ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ سمیت اعلیٰ دفاعی حکام کے ساتھ اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کے بعد شہری دفاعی مشقوں کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے کہا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات ’انتہائی خراب‘ ہو چکے ہیں اور کشیدگی ’کئی برسوں کی بلند ترین سطح‘ پر ہے۔
انہوں نے کہا ’اس نازک وقت میں یہ انتہائی ضروری ہے کہ کسی بھی فوجی تصادم سے گریز کیا جائے، جو آسانی سے بے قابو ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اب وقت ہے کہ زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کیا جائے اور (تصادم کے) دہانے سے پیچھے ہٹا جائے۔‘
کشمیر حملے کے بعد صرف تین دن کے اندر پیر کو پاکستان نے دوسرا میزائل تجربہ کیا۔ زمین سے زمین تک مار کرنے والے اس میزائل کی حد 120 کلومیٹر (75 میل) ہے۔
فتح سیریز کے اس میزائل کا تجربہ اس وقت کیا گیا جب دو دن قبل پاکستان نے زمین سے زمین تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل ابدالی کے کامیاب تجربے کا دعویٰ کیا، جس کی حد 450 کلومیٹر ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کامیاب تجربے پر کہا کہ ’یہ بات واضح ہو گئی کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔‘
یہ سب ایسے وقت میں ہوا ہے جب لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر صورت حال بدستور کشیدہ ہے۔ 740 کلومیٹر طویل سرحد نے انڈیا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دونوں حصوں کو تقسیم کر رکھا ہے۔
فروری 2021 میں ہونے والے سیز فائر معاہدے کے کشیدہ ماحول میں ٹوٹنے کے بعد دونوں جانب سے مسلسل 11 ویں رات بھی فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔
تازہ ترین حملے کے ایک ہفتے بعد دہلی نے پاکستان کے خلاف تیز رفتاری سے جوابی اقدامات کا سلسلہ شروع کیا۔
انڈیا نے پاکستان کے ساتھ مرکزی سرحدی گزرگاہ بند کر دی، اہم آبی وسائل کی شراکت داری کا معاہدہ معطل کر دیا، پاکستانی سفارت کاروں کو ملک سے نکال دیا، اور پاکستانی شہریوں کے لیے زیادہ تر ویزا خدمات روک دیں اور انہیں ملک چھوڑنے کے لیے صرف چند دن دیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا نے تمام پاکستانی طیاروں، کمرشل اور فوجی دونوں، پر اپنی فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندی بھی عائد کر دی۔
اسلام آباد نے بھی اسی نوعیت کی کارروائی کی۔ جواب میں پاکستان نے بھی اپنی ویزا خدمات معطل کر دیں اور انڈیا کے ساتھ 1972 کے ایک اہم امن معاہدے کو معطل کر دیا۔
ہمالیائی خطہ کشمیر انڈیا اور پاکستان کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری دشمنی کا مرکز رہا ہے۔
دونوں ممالک اس پورے مسلم اکثریتی علاقے پر دعویٰ کرتے ہیں لیکن اسے جزوی طور پر کنٹرول کرتے ہیں۔ دونوں ممالک اس خطے پر تین میں سے دو مکمل جنگیں لڑ چکے ہیں۔
انڈیا نے اپنے ہمسایہ ملک پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اس کے زیر انتظام علاقے میں سکیورٹی فورسز سے لڑنے والے علیحدگی پسندوں کی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ صرف کشمیریوں کے حق خودارادیت کی سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتا ہے۔
انڈین وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ روسی صدر ولادی میر پوتن نے پیر کو نریندر مودی سے ٹیلیفون پر بات کی اور کشمیر حملے کی ’شدید مذمت‘ کی۔
انہوں انڈیا کو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں مکمل تعاون کی پیشکش کی۔
نئی دہلی میں روسی سفارت خانے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ ’دونوں فریقوں نے دہشت گردی کی ہر شکل کے خلاف کسی سمجھوتے کے بغیر جنگ کی ضرورت پر زور دیا۔‘
انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر غور کے لیے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا بند کمرے میں اجلاس ہوا۔
یہ اجلاس پاکستان کی درخواست پر بلایا گیا تاکہ سکیورٹی کونسل کو صورت حال سے ’باقاعدہ طور پر آگاہ‘ کیا جا سکے اور اسے یہ یاد دلایا جا سکے کہ وہ مناسب اقدامات کرتے ہوئے ’عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کی اپنی بنیادی ذمے داری پوری کرے ۔‘