بھارتی ڈوزیئر میں مسعود اظہر کا ذکر موجود لیکن ثبوت ندارد: ترجمان دفتر خارجہ

پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارت پلوامہ حملے کا تعلق مسعود اظہر سے ثابت نہیں کر سکا ہے۔

ڈاکٹر فیصل کا کہنا ہے کہ اکیانوے صفحات پر مبنی بھارتی ڈوزیئر میں پلوامہ حملے سے متعلق صرف دو صفحے ہی نکلے۔ تصویر: اے ایف پی

پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارت پلوامہ حملے کا تعلق مسعود اظہر سے ثابت نہیں کر سکا ہے اور تحقیقات میں پیش رفت کے لیے بھارت سے مزید معلومات اور شواہد کا ملنا ضروری ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل کے مطابق بھارت کی جانب سے ملنے والے ڈوزیئر میں کالعدم تنظیم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کا زکر تو موجود ہے لیکن شواہد نہیں ہیں۔

بھارت کی جانب سے 27  فروری کو پلوامہ حملے سے متعلق تحریری شواہد پاکستان کے حوالے کیے گئے تھے جس کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان نے دس رکنی ٹیم تشکیل دی تھی۔

ڈاکٹر فیصل کا کہنا ہے کہ اکیانوے صفحات پر مبنی بھارتی ڈوزیئر میں پلوامہ حملے سے متعلق صرف دو صفحے ہی نکلے۔

بھارتی ڈوزیئر کے دیگر 89 صفحات میں کیا تھا؟

 بھارتی دستاویز 91 صفحات پر مشتمل تھی جس کے چھ حصے تھے۔ دستاویز میں پارٹ 2 اور 3 پلوامہ حملے سے متعلق تھے جبکہ دیگر حصے میں ’معمول‘ کے مطابق الزامات لگائے گئے تھے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق پلوامہ کے نام پر بھجوائے گئے دستاویزی شواہد میں لائن آف کنٹرول، بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دیگر چھوٹے بڑے واقعات، بھارت کے اندر ہونے والے دیگر دہشت گردی کے واقعات کو بھی پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔

بھارتی ڈوزیئر پر پاکستان کا ایکشن؟

ڈائریکٹر جنرل جنوبی ایشیا ڈاکٹر فیصل کے مطابق بھارت کی جانب سے دستاویزات ملنے کے فوراً بعد پاکستان نے دس رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جبکہ اس اس دستاویز کی روشنی میں کئی افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس تحقیقاتی ٹیم نے تکنیکی معاملات کو دیکھا اور سوشل میڈیا پر معلومات کا جائزہ بھی لیا۔ حملہ آور عادل ڈار کے اعترافی ویڈیو بیان کا بھی جائزہ لیا گیا۔ واٹس ایپ نمبر، ٹیلیگرام نمبر، ویڈیو پیغامات اور کالعدم تنظیموں کے مبینہ کیمپس کے حوالے سے بھی تحقیقات کی گئیں۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق بھارتی ڈوزیئر میں 90 سے زیادہ لوگوں کے نام درج تھے جن میں سے 19 ناموں کو دہرایا گیا۔ 71 ناموں میں سے 54 افراد کو حراست میں لے کر تحقیقات کی گئیں اور ابھی تک ان کا پلوامہ حملے سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہو سکا ہے۔ بھارت نے جن 22 مقامات کی نشاندہی  کی تھی ان کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ ان 22 مقامات پر کسی کیمپ کا کوئی وجود نہیں۔

اس حوالے سے سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ ’اگر بھارت چاہے تو پاکستان درخواست پر ان مقامات کا دورہ بھی کروا سکتا ہے۔ پاکستان پلوامہ حملے سے متعلق بھارتی الزامات کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتا ہے‘۔

پاکستان نے تین صفحات پر مشتمل جواب میں بھارت سے کیا کہا؟

پاکستان نے اپنے جواب میں کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں دس رکنی ٹیم نے تحقیقات کی اور ابتدائی تحقیقات میں پاکستان کسی طور اس معاملہ میں شامل نہیں۔ بھارت نے جو معلومات دیں ان میں تفصیل نہیں ہے۔ پاکستان نے بھارت سے مزید معلومات طلب کی ہیں اور بھارت سے کہا گیا ہے کہ پلوامہ سے متعلق تمام حساس معلومات کا تبادلہ کیا جائے اور ثابت کیا جائے اگر استعمال ہونے والا اسلحہ یا بارود پاکستان سے بھجوایا گیا یا کسی نے یہاں سے کوئی ہدایات جاری کیں؟

تحریر جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان سے صرف ناموں کا تبادلہ نہ کیا جائے بلکہ مبینہ مشتبہ افراد کا پلوامہ سے تعلق بھی ثابت کیا جائے۔ ملوث ہونے یا تعلق ثابت ہونے پر پاکستان ہر طرح کا تعاون کرے گا۔ اس کے علاوہ فراہم کیے گئے تمام متعلقہ بھارتی نمبر پر سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں سے تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔ واٹس ایپ میسج کے حوالے سے امریکی حکومت سے رابطہ کیا گیا ہے۔

14 فروری کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ حملے میں 40 سے زائد بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ واقعے کے بعد بھارت نے پاکستان پر حملے کا الزام لگایا تھا۔ پلوامہ واقعے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات شدت اختیار کر گئے تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو پلوامہ حملہ کے بعد تحقیقات میں مدد کی پیشکش کی تھی۔ دفتر خارجہ کے ڈی جی جنوبی ایشیا نے کہا کہ پاکستان آگے بڑھنے کے لیے بھارت کی طرف سے مزید معلومات اور شواہد کا انتظار کر رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان