ڈپریشن سے لے کر کپتانی تک: ٹم پین نے خود کو کیسے سنبھالا

آسٹریلین کرکٹ ٹیم کے کپتان نے انکشاف کیا ہے کہ ایک وقت پر انہیں کرکٹ سے نفرت ہو گئی تھی اور انجری کے دور میں وہ اپنے کیر یئر سے مایوس ہو کر رو پڑے تھے۔

مجھے لگتا تھا کہ میں اس (کرکٹ) کی بجائے دنیا میں کچھ بھی کر لوں گا: ٹم پین (اے ایف پی)

آسٹریلین کرکٹ ٹیم کے کپتان ٹم پین نے انکشاف کیا ہے کہ ایک وقت پر انہیں کرکٹ سے نفرت ہو گئی تھی اور انجری کے دور میں وہ اپنے کیر یئر سے مایوس ہو کر رو پڑے تھے۔

سٹیو سمتھ کو جب کیپ ٹاؤن میں بال ٹمپرنگ کے جرم میں معطل کردیا گیا تو 35 سالہ پین نے اس مشکل گھڑی میں ٹیسٹ کپتان کا عہدہ سنبھالا اور ٹیم کا مورال گرنے سے بچائے رکھا جس پر انہوں نے خوب پذیرائی سمیٹی۔

وکٹ کیپر کے طور پر بین الاقوامی کرکٹ میں قدم رکھنے کے فوری بعد 2010 میں ان کے کیریئر کو اس وقت بریک لگ گیا جب وہ انجری کا شکار ہو گئے اور یہ سب ان کے لیے آسان نہیں تھا۔

زخمی انگلی کے لیے سات سرجریز اور دو سیزنز آرام کی ضرورت تھی جس کی وجہ سے پین اعصابی تناؤ، بے خوابی اور مایوسی کا شکار ہو گئے تھے اورانہیں اپنا اعتماد بحال کرنے کے لیے کافی جدوجہد کرنا پڑی تھی۔

پین نے بھلائی اور اچھی ذہنی صحت کو فروغ دینے کی غرض سے بنائی گئی نئی پوڈ کاسٹ سیریز میں بتایا: ’انجری کے بعد میں اس صورت حال کو پہنچ گیا تھا جہاں مجھے ہر وقت خوف کا سامنا تھا اور مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ میرا مستقبل کیا ہے‘

’گیند دیکھنے کی بجائے میں اس سے زخمی ہونے کے بارے میں سوچ رہا تھا یا اگر یہ مجھ سے ٹکرا گئی تو کیا ہوسکتا ہے۔ جب آپ ایسا سوچ رہے ہوں تو کھیل بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

'میں کافی عرصے تک رنز نہیں بنا پا رہا تھا۔ میں کھا نہیں سکتا تھا اور سو نہیں پا رہا تھا۔ کھیل سے پہلے میں بہت گھبراہٹ محسوس کرتا تھا، میں خوف کے سائے تلے زندگی جی رہا تھا۔

پین نے کہا کہ انہیں کرکٹ دیکھنا تو پسند تھا  لیکن جب وہ اس کھیل اپنی کارکردگی کے بارے میں سوچتے تو انہیں اس سے نفرت ہو جاتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’مجھے لگتا تھا کہ میں اس (کرکٹ) کی بجائے دنیا میں کچھ بھی کر لوں گا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ میں ناکام ہوجاؤں گا۔ مجھے نہیں لگتا کہ کسی کو میرے اس خوف کا علم تھا حتیٰ کہ میرے بہترین دوستوں اور پارٹنر کو بھی نہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’مجھے وہ وقت یاد ہے جب (انجری کے باعث) میں گھر بیٹھا رہتا اور وہ (پارٹنر) کام پر چلی جاتیں اور میں صوفے پر بیٹھا روتا رہتا تھا۔

'یہ عجیب اور حقیقی تکلیف دہ صورت حال تھی۔ اس کی وضاحت کرنا مشکل ہے لیکن ہاں میں نے سوچا کہ میں اتنے سارے لوگوں کو دکھ پہنچا رہا ہوں۔‘

اے ایف پی کے مطابق ذہنی صحت حالیہ دنوں میں آسٹریلیا کی کرکٹ میں اہم مسٔلہ بن چکا ہے اور گلین میکس ویل، نک میڈنسن اور ول پکووسکی ذہنی مسائل سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

پین نے کہا کہ کھیلوں کے ماہر نفسیات سے بات چیت نے ان کی زندگی کا رخ موڑ دیا۔'یہ پہلا موقع تھا جب میں نے واقعتاً کسی کو بتایا کہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں اس کمرے سے باہر نکل کر  بہتر محسوس کررہا تھا۔ میں پہلی بار کسی سے اپنے دل کی بات کی تھی اور اعتراف کیا تھا کہ مجھے مدد کی ضرورت ہے۔‘

پین نے آخر کار 2017-18  کی ایشز سیریز کے دوران ٹیسٹ ٹیم میں دوبارہ اپنی جگہ بنا لی لیکن اندرونی خوف واپس لوٹ آیا۔ ’ٹیم میں واپسی حیرت انگیز احساس تھا اور پھر میں نے سوچا کہ یہ اچھا نہیں ہے۔ مجھے لوگوں کے سامنے بیٹنگ کرنا پڑے گی اور لاکھوں لوگ مجھے دیکھ رہے ہوں گے اور تین یا چار دن بعد میں نے سوچا کہ میں یہ نہیں کرنا چاہتا۔

'ایک بار پھر میں نے کچھ لوگوں سے بات کی اور یہ بوجھ اپنے سینے سے اتار پھینکا۔ میں نے سوچا کہ میں یہ کر سکتا ہوں۔۔۔ مجھے اس سے لطف اٹھانا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ