'میں خاموش نہیں رہوں گی'

ترکی کی جیل میں قید خاتون صحافی نے حیض کے خون، مشروبات، سبزیوں اور پھلوں سے فن کے نمونے تخلیق کر کے اپنی آواز کو دنیا تک پہنچا دیا۔

تصویر: دی انڈیپنڈنٹ ویب سائٹ

یہ داستان ہے صحافی زہرا دوگان کی، جو خواتین کے لیے مختص خبررساں ادارے JINAH سے وابستہ تھیں۔

 دی انڈپینڈنٹ کے لیے لکھے گئے اپنے مضمون میں زہرا بتاتی ہیں کہ کیسے ترک حکومت کے لیے ان کی ناپسندیدگی نے جنم لیا جو بالآخر انہیں سلاخوں کے پیچھے لے گئی۔

وہ بتاتی ہیں کہ 2015 میں کُرد اکثرتی شہروں میں ترک فوج اور مسلح باغی گروہوں کے درمیان جھڑپیں عروج پر تھیں جب انہوں نے بطور کُرد صحافی ان علاقوں کے دورے کا فیصلہ کیا۔

ترکی میں ذرائع ابلاغ پر سرکاری کنڑول کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن جنگ کے دوران صرف ترک فوج کی جانب سے جاری یک طرفہ بیانات اور پراپیگینڈا ہی معلومات کا واحد ذریعہ تھے۔

’میرے کئی دوستوں نے مجھے جنگ زدہ علاقوں کے دورے سے باز رہنے کا مشورہ دیا جہاں چوراہوں اور گلیوں میں جھڑپوں کے دوران ہلاک ہونے والے شہریوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ انہیں ڈر تھا کہ ایسی صورتحال میں مجھے گرفتار یا زخمی کیا جا سکتا تھا۔‘

مزید پڑھیے: خواتین کو ظلم و ستم کے خلاف بولنے کا موقع ملے گا

’لیکن اگر میں نہ جاتی تو کُرد برادری کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے بارے میں دنیا کبھی نہ جان پاتی۔ میں نے تمام دھمکیوں اور خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان علاقوں میں جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔‘

’دنیا کو سچ دکھانا ضروری ہو گیا تھا، اگر میں ایسا نہ کرتی تو یہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے سے پہلے ہی شکست تسلیم کرنے کے مترادف ہوتا۔‘

زہرا کہتی ہیں کہ جنگ زدہ علاقوں میں پہنچنے کے بعد انہوں نے محاذِ جنگ سے مہینوں رپورٹنگ کی اوراس دوران انہوں نے صرف اپنے آنکھوں دیکھے مشاہدات اور عینی شاہدین کے بیانات پر بھروسہ کیا۔

تاہم، ترکی میں حکومتی مداخلت اور سخت سنسرشپ کے باعث جنگ زدہ لوگوں کی کہانیاں ان سُنی ہی رہ گئیں۔

زہرا کا کہنا تھا کہ جس ویب سائٹ کے لیے وہ رپورٹنگ کرتی تھیں انقرہ حکومت نے اس پر قدغن لگا دی۔

’اس بدترین سنسرشپ کے بعد میں نے اپنے فن کے ذریعے جنگ زدہ علاقوں کی تباہ کاریوں کو دنیا کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا۔ میں ایک مصورہ بھی تھی لہذا پہلے پہل میں نے نصيبين شہر میں جاری تباہی کے مناظر اور وہاں جاری تکلیف دہ واقعات کی منظرکشی کے لیے موبائل اپلیکیشن اور سٹائلس کا استعمال کرتے ہوئے چند خاکے تخلیق کیے اور سوشل میڈیا پر شئیر کر دیے۔‘

’اس وقت سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر زیادہ پابندیاں نہیں تھیں تو یہ خاکے چند روز میں پوری دنیا میں پھیل گئے۔ اس کے بعد میں خود کو اٹھارویں صدی کی جنگی مصورہ تصور کرنے لگی۔‘

زہرا نے کہا کہ سوشل میڈیا پر مقبولیت کے بعد یہ خاکے ریاست سے بھی پوشیدہ نہ رہے جو فوری حرکت میں آئی اور ان کو گرفتار کر لیا گیا۔

’ترک عدلیہ نے میرے خاکوں اور خبروں کی بنیاد پر مجھے قید کی سزا سنائی، لیکن یہاں سوال اُٹھاتا ہے کہ فن کی صورت میں تنقید کی کیا حدود ہیں، تو عدلیہ نے سزا سُناتے ہوئے خود ہی جواب دے دیا کہ میں نے ان حدود کو پار کیا تھا۔‘

دورانِ قید زہرا کو جیل میں مصوری کی اجازت دی گئی اور باہر سے لوگ انہیں پینٹ، برش اور کینوس وغیرہ فراہم کرنے لگے، جن کو وہ جنگی مصوری کے ساتھ ساتھ خواتین قیدیوں کو مصوری سکھانے کے لیے استعمال کرنے لگیں۔ بالآخر ان سے یہ سہولت بھی چھین لی گئی۔

’جابر حکام شاید یہ بھول گئے تھے کہ پابندیاں مزاحمت کو جنم دیتی ہیں اور یہی ہمارے ساتھ ہوا۔ میں نے مشروبات، پھلوں، سبزیوں حتٰی کہ قیدی خواتین کے حیض کے خون سے مصوری کا سلسلہ جاری رکھا۔ میں نے پرندوں کے پروں اور اپنے بالوں کی لَٹوں سے برش کا کام لیا اور اتنی تخلیقات کیں جو میں باہر کی دنیا میں رہتے ہوئے شاید کبھی نہ کر پاتی۔‘

’میری کئی تخلیقات کو حکام نے قبضے میں لے لیا اور کئی کو ضائع کر دیا گیا مگر میں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنا کام جاری رکھا۔‘

مزید پڑھیے: پاکستان میں جج کے عہدے پر فائز ہونے والی دو ہندو خواتین

’ترک حکومت جس وقت مجھے دہشت گرد قرار دے رہی تھی، یورپ کے کئی ممالک میں میری مصوری تخلیقات کی نمائش جاری تھی۔ مجھے انہی خاکوں کے لیے کئی بین الاقوامی ایوارڈوں سے نوازا  گیا جن کو ترک عدلیہ حدود سے تجاویز گردانتی تھی۔ مجھے فخر ہے کہ یہ تصاویر نیویارک کی دیواروں کی زینت بھی بنیں۔‘

زہرا کہتی ہیں کہ ترک حکومت نے انہیں خاموش کرانے کے لیے آہنی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا لیکن ان کے الفاظ اور خاکے دنیا کے چاروں کونوں تک پھیل گئے۔

’میں سلاخوں کے پیچھے تھی مگر میرا ضمیر آزاد تھا۔ ریاست نے میرے وجود کو گرفتار کیا تھا تاہم وہ کبھی میری سوچ کو قید نہیں کر پائے۔ ترکی میں آج بھی ہزاروں کی تعداد میں آزاد خیال لوگ پابندِ سلاسل ہیں اور کروڑوں بند دماغوں کے ساتھ آزاد گھوم رہے ہیں۔‘

زہرا کا کہنا ہے کہ ان کے فن کی وجہ سے دنیا بھر سے ملنے والی پذیرائی کے بعد ترک حکومت کو انہیں آزاد کرنا پڑا لیکن وہ اب بھی خاموش نہیں رہیں گی۔
 

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین