طالبان اقتدار پر مکمل قبضہ نہیں چاہتے: ملا ہبت اللہ

روپوش ملا ہبت اللہ کا یہ تازہ پیغام انہوں نے مختلف زبانوں میں جاری کیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’ہمارا واضح پیغام یہ ہے کہ ہم اقتدار کی اجارہ داری نہیں چاہتے ہیں۔‘

روپوش ملا ہیبت اللہ کا یہ تازہ پیغام انہوں نے مختلف زبانوں میں جاری کیا (اے ایف پی)

افغان طالبان کے رہنما ملا ہبت اللہ اخوندزادہ نے عید الاضحی کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ان کی تحریک ’اسلامی نظام حکمرانی‘ کی راہ پر گامزن ہے اور وہ اقتدار پر مکمل قبضہ نہیں کرنا چاہتے ہیں۔

’ہمارا جہاد قبضے کو ختم کرنے اور ایک خالص اسلامی نظام کے قیام کے لیے رہا ہے اور ہم اپنی مجاہد اور ناراض قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘

روپوش ملا ہبت اللہ کا یہ تازہ پیغام انہوں نے مختلف زبانوں میں جاری کیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’ہمارا واضح پیغام یہ ہے کہ ہم اقتدار کی اجارہ داری نہیں چاہتے ہیں۔ افغانستان میں تمام نسلی گروہوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ اسلامی نظام کا فروغ، آزادی اور طاقت کا انحصار افغان اتحاد پر ہے۔‘

ادھر طالبان اور افغان حکومت نے عید الاضحی کے موقع پر تین روز کی جنگ بندی کا اعلان بھی کیا ہے۔

طالبان رہنما 2001 میں افغانستان میں اس تحریک کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے ہر سال یہ پیغام جاری کرتے ہیں۔ ان پیغامات کا مقصد ابتدائی سالوں میں افغان افواج اور ان کے بین الاقوامی حمایت یافتہ افراد کے ساتھ تشدد اور مسلح تصادم کو فروغ دینا تھا۔ لیکن اب کچھ عرصے سے طالبان رہنما کے پیغامات کا لہجہ نرم اور ’خالص اسلامی حکومت‘ بنانے پر مرکوز ہے۔

ملا ہبت اللہ نے بھی امریکہ اور بین الافغان مذاکرات کے ساتھ اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’دوحہ میں امریکیوں کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے اور پھر بین الافغان مذاکرات کی کوششیں وہ معاملات ہیں جن کے لیے امارت اسلامیہ نے اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا ہے۔ دوسری طرف سے قیدیوں کے تبادلے میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ یہ حقیقت کہ ہم امن کی طرف گامزن ہیں اور قیدیوں کی رہائی اس کا ایک اہم حصہ ہے، جو دونوں میں اعتماد پیدا کرتا ہے اور امن کا راستہ ہموار کرتا ہے۔‘

انہوں نے افغانستان میں پانچ فوجی اڈوں سے امریکیوں کے انخلا پر اطمینان کا اظہار کیا۔ دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے مابین طے پانے والے معاہدے کے تحت، امریکی افواج کو 135 دن کے اندر اندر پانچ فوجی اڈوں سے دستبردار ہونا تھا۔ معاہدے کے مطابق امریکہ کو 14 ماہ کے اندر افغانستان سے نکلنا ہوگا جس میں سے پانچ ماہ گزر چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان رہنما نے اپنے پیغام ، جو کسی نامعلوم مقام سے جاری کیا گیا تھا میں اشرف غنی کی سربراہی میں افغانستان کی جمہوری حکومت کے ساتھ کوئی ہمدردی ظاہر نہیں کی۔ پیغام میں متعدد مقامات پر انہوں نے ’خالص اسلامی نظام‘ کی تشکیل پر زور دیا ہے۔

اپنی گذشتہ روز جاری ہونے والی تازہ رپورٹ میں اقوام متحدہ نے رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں کم سے کم 43 فیصد شہری ہلاکتوں کا الزام طالبان پر عائد کیا۔ اگرچہ اس عرصے کے دوران عام شہریوں کی ہلاکتوں میں 13 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، لیکن اس عرصے کے دوران 3500 افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔

افغان حکومت نے ملا ہبت اللہ کے عید کے پیغام پر ابھی کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ تاہم افغان حکام پہلے بھی عید الاضحی کے پیغامات کو تشدد اور افغانستان پر طاقت کے ذریعے قبضے کو فروغ دینے کے لیے طالبان کا پروپیگینڈا قرار دے چکے ہیں۔

ادھر، افغانستان میں قیام امن کے لیے جاری کوششوں کے سلسلے میں امریکی خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد، جو اس وقت خطے میں ہیں، قیدیوں کی رہائی کے آخری مرحلے کی تکمیل اور بین الافغان مذاکرات کے آغاز کو حتمی شکل دینے کے لیے منگل کو قطر سے اسلام آباد اور کابل کا سفر کر رہے ہیں۔

طالبان ترجمان کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’تمام مجاہدین (طالبان جنگجو)۔۔۔کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ دشمن کے خلاف عیدالاضحی کے تین دن اور راتوں میں کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا