عبدالولی خان یونیورسٹی مردان: آٹھ ملازمین فارغ، سات کی تنزلی

یونیورسٹی کے اشتہار نمبر 48 پر بھرتی کیے گئے ملازمین کے خلاف انکوائری کرنے کے احکامات  جاری کیے گئے تھے جس کے اختتام پر یہ فیصلہ کیا گیا۔

(عبدالستار)

عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں غیرقانونی بھرتی کرنے کے الزام میں آٹھ افسران کو نوکریوں سے فارغ  اور سات افسران کی تنزلی کا فیصلہ کیا گیا جبکہ پندرہ افسران کی تنخواہوں سے سالانہ انکریمنٹ کاٹنے کے احکامات جاری کردیے گئے۔

عبدالولی خان یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر میاں سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یونیورسٹی نے 2015 میں اشتہار نمبر 48 جاری کیا تھا جس کے تحت  یونیورسٹی کے بانی اور سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر احسان علی کے دورمیں دو سو مستقل اور 174 کنٹریکٹ ملازمین جن میں گریڈ سترہ تک کے ملازمین بھرتی کیے گئے تھے۔

ان بھرتیوں کے خلاف مختلف امیدواران جو درخواست اور ٹیسٹ کے باوجود بھرتی نہیں ہو سکے، انہوں نے نیب، گورنر خیبرپختونخوا اور پشاور ہائی کورٹ میں درخواستیں جمع کروائیں کہ یہ عمل غیر قانونی تھا۔

یونیورسٹی کو اشتہار نمبر 48 پر بھرتی کیے گئے ملازمین کے خلاف انکوائری کرنے کے احکامات  جاری کیے گئے۔

رجسٹرار نے کہا کہ انکوائری مکمل ہونے پر معلوم ہوا کہ یہ نوکریاں غیرضروری طور پر مشتہر کی گئیں اور بھرتی کے عمل کے دوران یونیورسٹی کے قواعد کو بھی خاطر میں نہیں لایا گیا۔

جبکہ یونیورسٹی ان غیرضروری ملازمین کو سالانہ 21 کروڑ روپے تنخواہوں کی مدمیں دیتی تھی۔ انکوائری مکمل ہونے پر پچھلے سال یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ اجلاس میں فیصلہ کیا کہ ان تمام چار سو کے قریب ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کر دیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انکوائری میں جو افسران غیرقانونی طریقے سے ملازمین کی بھرتی کرنے میں ملوث پائے گئے ان کے نام بھی سامنے آگئے، جس پر ان افسران اور پروفیسرز کوصفائی کا پورا موقع فراہم کیا گیا۔

یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹرخورشید کے زیرصدارت سنڈیکیٹ اجلاس میں  فیصلہ کیا گیا کہ جن افسران نے غیرقانونی طریقے سے ملازمین بھرتی کیے جس سے یونیورسٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا اور اضافی مالی بوجھ بھی ڈالا گیا ان میں سے آٹھ افسران کو نوکریوں سے برطرف کرنے، سات کی تنزلی کرنے اور پندرہ اہلکاروں سے سالانہ انکریمینٹ کاٹنے کا فیصلہ کیا گیا۔

 برطرف کیے گئے افسران میں گریڈا 19، 20، 21 اور آٹھ کے افسران شامل ہیں۔

سات دیگر افسران جن میں گریڈ 21 سے گریڈ 19 تک افسران شامل ہیں، کی تنزلی کا فیصلہ کیا گیا۔ جبکہ مزید پندرہ افسران جو کہ کنٹریکٹ ملازمین کی غیرقانونی بھرتی میں ملوث پائے گئے جن میں گریڈ20 سے گریڈ17 تک افسران اور پروفیسرز شامل ہیں سے سالانہ انکریمنٹ کی کٹوتی اور آئندہ بھرتی کے عمل میں شامل نہ کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

یونیورسٹی کے رجسٹرار میاں سلیم نے بتایا کہ انکوائری کمیٹی نے سزائیں غیرقانونی بھرتیوں میں افسران کے کردار کو مدنظررکھتے ہوئے دی ہیں لیکن سنڈیکیٹ کا فیصلہ جاری ہونے سے پہلے متاثرہ اہلکاروں نے پشاور ہائی کورٹ سے فیصلے کے خلاف سٹے آرڈر حاصل کیا جس پر یونیورسٹی انتظامیہ نے اجلاس کے منٹس کو سیل کردیا اور پشاور ہائی کورٹ میں سٹے کے خلاف کیس دائر کیا لیکن فیصلہ حق میں نہ آنے کے صورت میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں کیس داخل کیا۔

گذشتہ ہفتے 23جولائی 2020کو سپریم کورٹ نے سٹے آرڈر خارج کرکے یونیورسٹی  انتظامیہ کو سنڈیکیٹ کے فیصلے کو جاری کرنے کا حکم کیا جس پر انتظامیہ نے عید کی چھٹیاں ختم ہوتے ہی فیصلے سے متاثرہ 32 افسران کوآرڈرکاپیاں دے دیں۔

عبدالولی خان یونیورسٹی پختون قوم پرست سیاستدان عبدالولی خان کے نام پر ان کے نواسے اور خیبرپختونخوا کے سابق وزیر اعلی امیرحیدر خان ہوتی نے سال 2010 میں قائم  کی تھی جس میں اب دس ہزار سے زائد طلبا وطالبات پڑھ رہے ہیں جب کہ سولہ سو تک ملازمین ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے ہیں۔

اس وقت یونیورسٹی معاشی مسائل کا بھی شکار ہے جس کی وجہ سے پچھلے ماہ سے ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جبکہ مالی بدعنوانیوں پر یونیورسٹی کے سابقہ اور بانی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹراحسان علی بھی نیب کے مختلف کیسز کا سامنا کررہے ہیں۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس