برطانیہ میں غیرملکی طلبہ کھانے یا فیس میں انتخاب پر مجبور

فلاحی اداروں کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں مقیم غیر ملکی طلبہ کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے باعث معاشی مشکلات کا شکار ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی فیس ادا نہیں کر پا رہے جبکہ انہیں حکومت کی جانب سے دی جانے والی امداد تک بھی رسائی حاصل نہیں ہے۔

بھارتی طالب علم  رافیہ شیرین بھی مشکلات کا شکا ہیں ( رافیہ شیرین)

فلاحی اداروں کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں مقیم غیر ملکی طلبہ کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے باعث معاشی مشکلات کا شکار ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی فیس ادا نہیں کر پا رہے جبکہ انہیں حکومت کی جانب سے دی جانے والی امداد تک بھی رسائی حاصل نہیں ہے۔

 کووڈ 19 کی وجہ سے جز وقتی نوکریاں ختم ہونے اور بیرون ملک مقیم خاندانوں کی جانب سے مالی معاونت سے محروم ہونے کے باعث کئی طلبہ کھانے کے لیے پیسے بچانے یا اپنی تعلیمی اخراجات کی فیس بھرنے کے درمیان پھنس گئے ہیں۔ برطانیہ میں رہنے کے لیے عام طور پر یہ فیس بھرنا لازمی ہے۔

معاملے کی شدت میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زیادہ تر غیر ملکی طلبہ برطانوی ریاست کی جانب سے دی جانے والی امداد تک رسائی نہیں رکھتے جس کی وجہ این آر پی ایف کی پالیسی ہے۔ جو ہزاروں تارکین وطن کو اپنی امیگریشن حیثیت کی وجہ سے حکومتی امداد حاصل کرنے سے روکتی ہے۔

وزار پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ ان افراد تک مدد کی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کریں۔ ساتھ ہی یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ یہ افراد اپنی فیس نہ ادا کرنے کی وجہ سے اپنی تعلیم سے محروم نہ ہوں اور برطانیہ سے بے دخل نہ کیے جائیں۔ برطانیہ میں عمومی طور پر تعلیمی فیس دس ہزار سے 38 ہزار پاونڈز کے درمیان ہوتی ہے۔

برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 500 سے زائد یونیورسٹی طلبہ، اساتذہ، ارکان پارلیمنٹ، ٹریڈ یونینز اور تارکین وطن کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے وزیر داخلہ پریتی پاٹیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بین الااقوامی طلبہ کے لیے این آر پی ایف کی پالیسی کو معطل کر دیں تاکہ ان افراد کو کرونا کی وبا کے دوران بے سہارا ہونے سے بچایا جا سکے۔

ایک دوسرے خط میں تنظیموں نے یونیورسٹیز منسٹر میشیل ڈون لین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کرونا کی وبا سے متاثر ہونے والے غیر ملکی طلبہ کو فیسوں سے مستشنی قرار دے دیں۔ خط میں تنبیہ کی گئی ہے کہ ایسے طلبہ 'خودکشی' کرنے کا سوچ سکتے ہیں کیونکہ وہ 'اپنے تعلیمی اداروں سے نکالے جانے اور سنگین امیگریشن مسائل سے دو چار ہونے سے خوف زدہ ہیں۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تارکین وطن کے حقوق کے لیے سرگرم مائیگرنٹس رائٹس نیٹ ورک اور یونیز ریزسٹ بارڈر کنٹرولز کی جون میں کی جانے والی ری سرچ جس میں 124 غیر ملکی طلبہ نے حصہ لیا تھا میں نشاندہی کی گئی تھی کہ ان طلبہ میں سے نصف سے زائد بے سہارا تھے یا بے سہارا ہونے کے خطرے کا شکار تھے جب کہ ان میں سے چار میں سے تین افراد لاک ڈاون کی وجہ سے اپنی جز وقتی نوکری سے محروم ہو کر بے روزگار ہو چکے تھے۔

سنگاپور سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ کھانا نہ کھانے اور اپنے کام کے لیے شدید جسمانی درد کے باوجود ٹرانسپورٹ کے بجائے پیدل چل کر جانے پر مجبور ہیں۔ ان کی جزوقتی بیوٹی کنسٹلنٹ کی نوکری وبا کی وجہ سے محض چند گھنٹوں کی ہو گئی ہے۔

یونیورسٹی آف آرٹس لندن میں زیر تعلیم ان خاتون کے مطابق: 'میرے اور باقی غیر ملکی طلبہ کے لیے یہ بات ٹیوشن فیس یا کرائے کے بیچ کسی ایک کا انتخاب کرنے تک آ چکی ہے۔ اور ہم میں سے زیادہ تر افراد وبا کے دوران رہنے کی جگہ کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یہ بہت پریشان کن صورت حال ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ہمارا ویزا ہماری تعلیم سے مشروط ہے۔ اگر ہم بین الااقوامی طالب علموں کی بہت زیادہ فیس مکمل طور پر پیشگی ادا نہیں کرتے یا ہم ایک قسط وقت پر نہیں دیتے تو اس کے نتائج صرف کورس سے اخراج سے کہیں زیادہ ہوں گے بلکہ یہ ہمیں ایک تکلیف دہ امیگریشن کے عمل میں ڈال دے گا۔ کیونکہ یہاں پر این آر پی ایف لاگو ہے۔ ہم ایک ایسے وقت میں بے سہارا ہو چکے ہیں جب ہمارے پاس اپنے ملک سے یا اپنی نوکری سے وہ وسائل موجود نہیں ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ٹیوشن فیس بھی ادا کرنی ہوگی۔'

 رافیہ شیرین 24 سال کی ہیں اور گذشتہ ستمبر میں یونیورسٹی آف سینٹرل لنکا شائر میں انٹرکلچرل بزنس کمیونی کیشن میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھارت سے برطانیہ منتقل ہوئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کرائے اور بنیادی ضروریات کے لیے ان کا انحصار خیرات یا بھارت میں مقیم اپنے اہل خانہ سے آنے والی رقم پر ہے جو کہ خود مشکلات کا شکار ہیں۔

بھارتی شہری رافیہ اپنے تعلیمی کورس کے لیے ایک سال میں 13 ہزار 900 پاؤنڈز فیس ادا کرتی ہیں۔ وہ وبا سے قبل اپنی یونیورسٹی میں ایک جزوقتی انتظامی نوکری کر رہی تھیں لیکن یہ سلسلہ مارچ میں رک گیا تھا۔

رافیہ کا کہنا ہے کہ 'مجھے اپنے والدین سے پیسے مانگنا اچھا نہیں لگتا۔ بھارت میں میرے خاندان کے مالی حالات بھی کچھ اچھے نہیں ہیں۔ وہ بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔'

رافیہ کہتی ہیں 'میں بہت احتیاط سے خرچ کرتی ہوں۔ اگر میں دس پاؤنڈز بھی خرچ کروں تو سوچتی ہوں کہ بھارت میں اس کی قیمت کیا ہو گی کیونکہ میرے اہل خانہ مجھے وہاں سے پیسے بھیجتے ہیں۔ یہ بہت تکلیف دہ ہے۔ میں کام تلاش نہیں کر سکتی۔ سات مہینے ہو چکے ہیں اور مجھے بہت سا کام جمع کرانا ہے لیکن میں اس پر توجہ نہیں دے پا رہی کیونکہ میں اپنے مالی معاملات کی وجہ سے پریشان ہوں کہ میں اپنے اخراجات کیسے پورے کروں۔'

رافیہ کا کہنا ہے کہ انہیں مئی میں اپنی یونیورسٹی سے ایک بار 200 پاؤنڈز کی مدد ملی تھی لیکن اس کے بعد ان کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔ ان کا مزید کہنا ہےـ  'ہم آن لائن کلاسز کی بھی فیس ادا کر رہے ہیں۔ ہمیں صحیح طریقے سے نہیں پڑھایا جا رہا لیکن اس کے باوجود ہمیں پوری فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔'

سٹیفن ٹمز جو کہ ایسٹ ہام سے لیبر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ ' برطانیہ میں مقیم غیر ملکی طلبہ کی مشکلات کے حوالے سے بہت تشویش کا شکار ہیں۔' انہوں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ 'ان طلبہ کو اپنے حال پر نہ چھوڑا جائے۔'

 

مشرقی نوٹنگھم سے رکن پارلیمنٹ نادیہ ویٹومے کہتی ہیں کہ یہ طالب علم 'غیر منصفانہ طور پر سزا پا رہے ہیں' جس کی وجہ ان کا امیگریشن سٹیٹس ہے۔

ان کا کہنا تھا: 'ایسا کسی بھی وقت پر نہیں ہونا چاہیے لیکن ایسا عالمی وبا کے دوران ہونا ایک ظلم ہے۔ مجھے امید ہے کہ این آر پی ایف کی پوری پالیسی پر کووڈ 19 کے تناظر میں نظر ثانی کی جائے گی۔'

سناز راجی جو کہ یونیز ریزسٹ بارڈر کنٹرولز کی بانی ہیں جو کہ طلبہ کو مئی سے 6000 پاؤنڈز کی مالی مدد کر چکی ہے، نے اعلی تعلیم کی 'مارکیٹ زدہ' پالیسی پر تنقید کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فیس کے لیے طلبہ کا 'استحصال' ہے جو وہ برطانیہ میں جمع کراتے ہیں۔'

ان کا مزید کہنا ہے کہ 'تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے کے بعد اضافی طور پر مخالفت پر مبنی حالات عالمی طالب علموں کے لیے امتیازی سلوک برتنے والے اس ماحول کو للکارنے سے روکتے ہیں۔ کووڈ 19 نے ان مشکلات کو بہت واضح کر کے دکھایا ہے جو غیر ملکی طلبہ کو برطانیہ میں تعلیم کے دوران پیش آتے ہیں۔'

مائیگرنٹس رائٹس نیٹ ورک میں لندن پروجیکٹ کوارڈی نیٹر مہلیا ببجاک کا کہنا ہے: 'یونیورسٹیاں سماجی عدم مساوات کے ڈھانچے کو توڑنے کے لیے اہم کردار کر سکتی ہیں اور ان کی مستقبل اور حال کے کردار کا اندازہ اس وقت نہیں کیا جا سکتا جب تک وہاں پڑھنے والے طلبہ تعصب کا سامنا کرتے رہیں گے جو کہ برطانیہ کے مخالفت پر مبنی ماحول کا حصہ ہے۔'

ایک حکومتی ترجمان کا کہنا تھا: 'ہم اس معاملے میں بہت واضح ہیں کہ کسی کو بھی خود کو اس بحران کے دوران بے سہارا نہیں پانا چاہیے جو ان کے قابو میں نہیں ہے اور طالب علم مشکل حالات کے لیے فنڈز حاصل کر سکیں۔ ایسے افراد جو کہ عوامی فنڈ تک رسائی نہیں رکھتے ان کے مدد کے لیے اقدامات لیے جا رہے ہیں جن میں رینٹ پروٹیکشن، نوکری کی بحالی، سیلف امپلائمنٹ انکم سپورٹ سکیم اور ایسے افراد کی مدد کے لیے 750 ملین پاؤنڈز کی چیریٹز شامل ہیں۔'

 ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ طلبہ جو مالی طور پر مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اور اپنی فیس ادا نہیں کر سکتے وہ اپنی یونیورسٹی سے رابطہ کر کے انہیں آگاہ کر سکتے ہیں کیونکہ کئی یونیورسٹیوں میں مشکل حالات کے لیے فنڈز موجود ہیں جو ملکی یا بین الااقوامی طلبہ کو ضرورت کے وقت مدد دے سکتے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس