کرونا قیامت سے بدتر ہے

کرونا ایک ایسی سزا ہے کہ جس نے بارونق بازاروں کو سنسان بنا دیا ہے۔ انسانوں کو چہرہ چھپانے پر مجبور کر دیا ہے اور بعض ملکوں کی جدید ٹیکنالوجی کے غرور کو پاش پاش کر دیا ہے۔

گلاسگو کی گلیوں میں کرونا سے متعلق دیوار پر لگائی گئی ایک تصویر (اے ایف پی)

اگر یہ سال شروع ہونے سے پہلے کوئی یہ پیش گوئی کرتا کہ ہم سب کو قیامت سے پہلے قیامت کے ٹریلر سے گزرنا ہے تو شاید لوگ اس کو دیوانہ کہہ کر پتھر مارتے یا سوشل میڈیا پر سنگسار کرتے جیسا کہ آج کل ہماری دنیا کا مزاج بن گیا ہے۔

کرونا (کورونا) وائرس نے پورے عالم میں جو قہر برپا کر دیا ہے وہ قیامت سے کم نہیں۔ دنیا کے 188 ملکوں میں تین کروڑ سے زائد افراد کرونا وائرس میں مبتلا ہیں، نولاکھ کی ہلاکتوں کی تصدیق ہوچکی ہے اور دنیا کی آٹھ ارب آبادی میں اس قدر خوف و ہراس ہے کہ قدرتی اموات کو چھپانے  کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہیں کرونا اموات کے کھاتے میں ڈال کر لواحقین کے لیے یہ سانحہ ناقابل برداشت بن جاتا ہے جب آپ مرنے والے کا چہرہ بھی آخری بار نہیں دیکھ سکتے۔ اللہ کا یہ ایسا عذاب ہے کہ اس کی موت بھی عبرت ناک ہے۔

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

میرا تعلق مشرق کی سادگی سے ہے لیکن مغرب کی چکاچوند کر دینے والی فیشن اور کمپٹیشن انڈسٹری کو دیکھنے کا بھرپور موقع بھی ملا۔ میرا مذہب اسلام ہے مگر تمام مذاہب کا تھوڑا بہت مطالعہ کرنے کا شوق بھی رہا ہے۔ میں نے اپنے وطن میں مارشل لا سے بدترین دور دیکھا ہے لیکن یورپی ملکوں میں جمہوری نظام کی شاندار روایت کا مزا بھی چکھا ہے۔ لیکن کرونا سے عالمی نظام میں جو تغیر اب دیکھ رہی ہوں اور اس کی بےرحمی کو محسوس کر رہی ہوں اس کو بیان کرنے کے لیے پتھر کا قلم ہونا چاہیے۔

کرونا شروع ہونے سے پہلے کا زمانہ جیسا بھی تھا ایک موہوم سی امید تھی کہ حالات بہتر ہو جائیں گے اور دنیا میں امیر غریب، مشرق مغرب، مارشل لا اور جمہوریت کے بیچ فاصلے کسی وقت ختم ہو جائیں گے۔ لیکن کرونا کے بعد کی جس دنیا کو میں دیکھ رہی ہوں میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ یہ وبا ایک ایسی آفت ہے کہ جس کے مضمرات سے ہماری کئی نسلوں کو نمٹنا ہوگا اور دنیائے سیاسیات اور اقتصادیات کا نیا نقشہ سب کو مہبوت کر کے رکھ دے گا۔
ہماری دنیا معاشی طور پر تین حصوں میں بِٹی ہوئی ہے۔ ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور افلاس زدہ ممالک۔۔۔۔

کرونا نے جس بے دردی اور بے رحمی سے ترقی یافتہ ملکوں کو معاشی طور پر مفلوج کر دیا ہے اس کی شاید کہیں نظیر نہیں ملتی۔ اس حالت کو وہی محسوس کرسکتا ہے کہ جس نے ان ملکوں کی چمک دمک کافی قریب سے دیکھی ہوگی۔ لندن شہر جو کبھی سوتا نہیں تھا آج بھوت شہر میں تبدیل ہوچکا ہے حالانکہ حکومت نے اس کی رونق بحال کرنے کی درجنوں امدادی سیکیمیں جاری کیں ہیں۔ نیو یارک یا پیرس کے حالات سے آپ واقف ہوں گے۔.
وبا کے اثرات ان ممالک کے لیے ایک بڑے زلزلے کی مانند ہے جن کی معیشت پوری دنیا سے جڑی ہوئی ہے وہ چاہیے امریکہ ہو، یورپ ہو یا ایشیا کی دو بڑی معیشتیں بھارت یا چین ہو، ان ملکوں میں اقتصادی بدحالی شروع ہوچکی ہے۔ شہری ہوابازی، ہوٹل انڈسٹری، سیاحت اور ریٹیل انڈسٹری تقریبا زمین بوس ہوچکی ہے۔

امریکہ میں ایک کروڑ سے زائد ملازمتیں ختم ہوگئی ہیں۔ کھربوں ڈالرز کی مالیت کی شہری ہوابازی کی صنعت دم توڑ رہی ہے۔ برطانیہ، فرانس، اٹلی اور سپین میں اگر عوام کو حکومت روزانہ کے اخراجات ادا نہیں کرتی تو یہاں لاکھوں خاندان بھوک سے مرگئے ہوتے۔ ان ملکوں کی جی ڈی پی منفی 14 رہ گئی ہے۔ یورپین مرکزی بنک معاشی خلا کو پورا کرنے میں لگا ہے لیکن ماہرین کے مطابق بحالی میں کئی دہائیاں درکار ہیں۔

چین میں تیز رفتار ترقی کے باوجود مینوفیکچرنگ انڈسٹری شدید مندی کا شکار ہے اس لیے کہ یورپی مارکیٹوں میں خریدوفروخت تقریبا صفر کے برابر رہ گئی ہے۔ بھارت میں حالیہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جون تک بارہ کروڑ افراد ملازمت سے فارغ  کر دیے گئے ہیں جہاں پہلے ہی کروڑوں بے روزگار معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترقی پذیر ممالک قرضوں کے سہارے اقتصادی ترقی کے منصوبے چلا رہے تھے جن پر عمل درآمد روک دیئے گئے ہیں۔ دوسرے ملکوں پر اقتصادی انحصار ختم ہونے کی وجہ سے بےروزگاری بڑھ رہی ہے جو بقول ماہرین اس بات کا پیش خیمہ ہے کہ اگر امیر ملکوں کی معیشت نہیں سنبھلتی تو غریب ملکوں کی حالت ناگفتہ بہ بن جائے گی کیونکہ بیشتر مالیاتی امداد سے اپنے عوام کی بنیادی ضروریات کو پوری کرنے کے عادی بن چکے ہیں۔

عالمی بینک کے مطابق مزید ایک کروڑ دس لاکھ ملازمتیں ختم ہونے کا امکان ہے۔

معاشی عالمگیریت نے جہاں غریب ترین ملکوں کو ترقی کے مواقع فراہم کیے تھے وہیں اب کرونا وائرس کی وجہ سے عالمگیریت کا تصور ختم ہو رہا ہے۔ سیاست اور معیشت کے ایک دوسرے پر انحصار ختم کرنے کا عمل زور پکڑ رہا ہے۔

عالمی تجارت 13 سے 32 فیصد مزید گر نے والی ہے جس کے سبب، عالمی سیاحت، ہوابازی اور بین الاقوامی سیاسی اتحاد سب سے زیادہ متاثر ہو جائیں گے جو پہلے ہی قوم پرست تحریکوں، تارکین وطن کی گھر واپسی اور تحفظات کی پالیسیوں کی وجہ سے کمزور ہوچکے ہیں۔ بیشتر ممالک اب ایسی تجارتی پالیسیوں پر توجہ مرکوز کرنے لگے ہیں جو گھریلو صارفین اور کھپت کو مدنظر رکھ کر بنائی جا رہی ہیں تاکہ بیرونی منڈیوں پر انحصار ختم کیا جاسکے۔ چین اس عمل میں سبقت لینے والا پہلا ملک بتایا جاتا ہے جس کی برآمدات پر دنیا کی بیشتر مارکیٹوں کا انحصار ہے۔

اگر کرونا وائرس کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا جیسا کہ عالمی ادارہ برائے صحت نے اشارہ دیا ہے تو سمجھ لینا چاہیے وہ قیامت کا ٹریلر نہیں حقیقت میں قیامت ہوگی جو دنیا کی رہی سہی معیشت کو زمین بوس کر کے پھر ہمیں وہیں پہنچا دے گی جہاں انسان گھاس پھوس پر زندہ رہا کرتا تھا۔ لیکن اس وقت کم قلیل آبادی گزارہ تو کر سکتی تھی آج آٹھ ارب آبادی کے باعث شاید انسان کو انسان کھانے کی نوبت پر مجبور ہونا پڑے گا۔

کرونا ایک ایسی سزا ہے کہ جس نے بارونق بازاروں کو سنسان بنا دیا ہے۔ انسانوں کو چہرہ چھپانے پر مجبور کر دیا ہے اور بعض ملکوں کی جدید ٹیکنالوجی کے غرور کو پاش پاش کر دیا ہے۔

شاید انسان کے ارتقائی عمل نے واپسی کا رخ اختیار کیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم واپس اس موڑ پر پہنچ جائیں گے جب زندگی میں اتنے الجھاؤ نہیں تھے، جب سادگی کو زیور مانا جاتا تھا اور ایک دوسرے پر سبقت پانے کی لالچ نہیں تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ