کوئٹہ: خواتین کے لیے بنی سائیکلیں مرد کیوں چلاتے ہیں؟

جاپانی سائیکلیں جنہیں مقامی لوگ 'باجی سائیکل' بھی کہتے ہیں اصل میں بنی ہیں خواتین کے لیے ہیں لیکن انہیں کوئٹہ میں مرد چلاتے نظر آتے ہیں۔

کوئٹہ جہاں کسی زمانے میں سہراب اور چائنا کی سائیکلوں کا راج تھا اب ان کی جگہ جاپانی سائیکلوں نے لے لی ہے۔

یہ سائیکلیں نہ صرف چلانے میں ہلکی بلکہ پائیدار بھی ہیں جس سے نوجوان اور بچوں سمیت بوڑھے افراد بھی انہیں استعمال کرتے ہیں۔

کوئٹہ کا صرافہ بازار جہاں کچھ عرصہ قبل ہر طرف سہراب اور چائنا کی سائیکلیں نظر آتی تھیں اب یہ سائیکلیں ڈھونڈنےسے بھی نہیں ملتی ہیں۔

جاپانی سائیکلیں جنہیں مقامی لوگ 'باجی سائیکل' بھی کہتے ہیں۔ اصل میں بنی ہیں خواتین کے لیے ہیں لیکن انہیں کوئٹہ میں مرد چلاتے نظر آتے ہیں۔

ایسے ہی ایک مرد اعجاز بھی ہیں جن جاپانی سائیکل کو چلانے میں مزا آتا ہے اور وہ اسے سفر کے لیے بہترین قرار دیتے ہیں۔

اعجاز کے بقول یہ سائیکل چائنا اور سہراب کے مقابلے میں بہت پائیداراور ہلکی ہے۔اسے یہاں باجی سائیکل بھی کہا جاتا ہے۔

اعجاز نے بتایا کہ واقعی یہ سائیکل بنی تو خواتین کے لیے ہے لیکن اس کو کوئٹہ میں مرد چلاتے ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں خواتین کا سائیکل چلانا اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔

اعجاز کے مطابق،ہمارے ہاں خواتین رکشوں،بسوں کے ذریعے بازار خریداری کے لیے جاتی ہیں لیکن کوئی سائیکل نہیں چلاتی ہیں۔

اعجازنے بتایا کہ اگر کوئی لڑکی سائیکل چلاتے ہوئے نظر آئے تو اسے معاشرے میں بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

سہراب اور چائنا سائیکل کے برعکس اس جاپانی سائیکل میں ڈنڈی نہیں ہوتی جو خواتین سواروں کی آسانی کے لیے ہٹائی گئی ہے۔

ادھر صرافہ بازار کے دکاندار سمجھتے ہیں کہ  جاپانی سائیکلوں کے آنے سےسہراب اور چائنا کی سائیکلوں کا صفایا ہوگیا ہے۔

صرافہ بازار میں جاپانی سائیکلیں فروخت کرنے والے ایک دکاندار جان محمد سمجھتے ہیں کہ جاپانی سائیکل سہراب اور چائنا کے مقابلے میں پائیدار ہلکی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جان محمد کے بقول،مارکیٹ میں اب جاپانی سائیکلوں کی مانگ زیادہ ہے کیونکہ یہ غریب سے لیکر  امیر ہر طبقے کی دسترس میں ہے۔

جان محمد بتاتے ہیں کہ،جاپانی سائیکل کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ یہ جلدی خراب نہیں ہوتی ہے اور اس کا میٹریل بھی پرانے سائیکلوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے۔

جان محمد کے مطابق، یہ سائیکلیں استعمال شدہ آتی ہیں جنہیں ہم پرزے الگ الگ کرکے بناتے ہیں ان کی قیمتیں چار پانچ ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک بھی ہوتی ہیں۔

کوئٹہ کی مارکیٹ میں موجود سائیکلیں کباڑ کی صورت میں چائنا ،جاپان ،سری لنکا سے آتی ہیں جنہیں یہاں پرزے جوڑ کر دوبارہ کارآمد بنایا جاتا ہے۔

دکانداروں کے مطابق،جاپانی سائیکلیں ہر طبقے کے لوگ استعمال کرتے ہیں جن میں بعض واک کے لیے لےجاتے ہیں اور طلبہ بھی خریدتے ہیں۔

دکاندار کہتے ہیں پہلے ہمارے پاس امبر، سہراب، ریلے اور چائنا کی سائکلیں آتی تھیں جو اب ناپید ہوچکی ہیں اور اگر کسی کے پاس موجود ہو تو وہ منہ مانگی قیمت پر فروخت کرے گا۔

جاپانی سائیکلوں نے کوئٹہ شہر میں سائیکل چلانے کے رجحان کو بھی تبدیل کردیا ہے جس کی وجہ سے اب لوگ اسے بطور ورزش اور سواری کے لیے بھی استعمال کررہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا