ریپ کے مجرموں کو نامرد بنانے کے بیان پر ملا جلا ردعمل

وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کہا: 'میرے خیال میں جنسی جرائم کے مرتکب افراد کو کیمیائی طریقے سے نامرد بنا دینا چاہیے۔ میں نے پڑھا ہے کہ ایسا کئی ملکوں میں ہو رہا ہے۔'

وزیراعظم عمران خان   (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بدترین جنسی جرائم میں ملوث مجرموں کو کیمیائی عمل کے ذریعے نامرد بنانے کی سزا دینے کے حوالے سے بیان پر ملا جلا ردعمل سامنے آرہا ہے۔

وزیراعظم کا یہ بیان لاہور موٹروے پر ایک خاتون کے ساتھ ریپ کے ایک حالیہ واقعے کے سخت ردعمل اور ملک کے مخلتف حصوں میں احتجاجی مظاہروں کے بعد سامنے آیا ہے۔

عمران خان نے نجی ٹیلی ویژن چینل 92 نیوز کو ایک انٹرویو میں مذکورہ مقدمے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ 'جنسی جرائم کے مرتکب افراد کو سرعام پھانسی دی جانی چاہیے، تاہم اس سے ان ممالک سے تجارت متاثر ہو سکتی ہے جو سزائے موت کے خلاف ہیں جن میں یورپی یونین شامل ہے۔'

ساتھ ہی انہوں نے کہا: 'میرے خیال میں جنسی جرائم کے مرتکب افراد کو کیمیائی طریقے سے نامرد بنا دینا چاہیے۔ میں نے پڑھا ہے کہ ایسا کئی ملکوں میں ہو رہا ہے۔'

انہوں نے مزید کہا: 'قتل کی پہلے، دوسرے اور تیسرے درجے کے لحاظ سے درجہ بندی کی جاتی ہے۔ اس جرم کی بھی درجہ بندی ہونی چاہیے اور پہلے درجے کے جنسی جرم کی سزا جنسی صلاحیت سے محروم کرنا ہونی چاہیے۔'

گذشتہ ہفتے لاہور کے قریب موٹر وے پر خاتون کو بچوں کے سامنے ریپ کا نشانہ بنانے کا واقعہ پیش آنے کے بعد حالیہ دنوں میں پاکستان بھر میں ہزاروں خواتین نے سڑکوں پر احتجاج کیا ہے۔ واقعے کے بعد عوامی غم و غصے میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے واقعے کی ذمہ داری خاتون پر ڈال دی کہ وہ رات کے وقت کسی مرد کے بغیر سفر کیوں کر رہی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولیس نے گینگ ریپ کے دو ملزمان میں سے ایک کو گرفتارکر لیا ہے، جن کا نام شفقت علی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ ملزم کا ڈی این اے میچ کر گیا ہے اور انہوں نے اعتراف جرم کرلیا ہے۔

ماہر قانون اسامہ ملک نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ 'ریپ کے جرم میں سزا کی شرح محض دو فیصد ہے۔ بچوں سے زیادتی کی صورت میں یہ شرح مزید کم  ہو جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ریپ کو رپورٹ نہیں کیا جاتا۔'

انہوں نے کہا کہ جنسی جرائم سے معاشرے میں بدنامی کا خوف بھی جڑا ہوا ہے جبکہ فرانزک شواہد اکٹھے کرنے کے نظام میں موجود خامیاں اور مقدمہ چلانے کے فرسودہ طریقوں کی وجہ سے بھی سزا کی شرح انتہائی کم ہوتی ہے۔

وزیراعظم کے بیان پر ردعمل

وزیراعظم کے اس بیان کو جہاں بہت سے لوگ سراہ رہے ہیں، وہیں کچھ کا کہنا ہے کہ اس سے صرف غریب ہی سزا پائیں گے اور امیر پیسہ دے کر بچ جائیں گے۔

ایک صارف نے لکھا: 'یہ کرپشن کا نیا طریقہ ہے۔ غریبوں کو اس کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ امیر لوگ پیسے کے استعمال سے اس سے بچ جائیں گے۔ لوگ تو ڈاکٹر خرید لیتے ہیں۔ سرعام پھانسی ہی اس جرم کو روک سکتی ہے۔

ایک اور صارف نے لکھا کہ 'اس عمل کے باوجود بھی ریپ کرنے والے ہمارے آس پاس گھوم رہے ہوں گے۔ کیا اس طرح سے انہیں خواتین کو ہراساں کرنے سے روکا جاسکتا ہے؟'

ایک اور صارف نے اسے 'لولی پوپ' قرار دیتے ہوئے لکھا کہ 'کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔'

عمر نامی صارف نے بھی ان ہی خیالات کا اظہار کیا کہ 'یہ قانون صرف غریبوں کے لیے ہوگا جن کے پاس پولیس کو دینے کے لیے پیسے نہیں ہوں گے۔'

دوسری جانب ریا نامی ایک صارف نے وزیراعظم کے اس بیان کی حمایت کرتے ہوئے لکھا کہ 'میں پھانسی کی بجائے اس اقدام کی حمایت کرتی ہوں۔ اس طرح کم از کم ریپ کے مجرم کو 'نامرد' کے لیبل کے ساتھ اپنا جرم ہمیشہ یاد رہے گا۔'

بشریٰ نامی صارف نے سکینڈی نیویا کی مثال دی، جہاں اس عمل کے نتیجے میں ریپ کیسز میں کمی آئی اور ساتھ ہی لکھا کہ پاکستان میں اس پر عملدرآمد بھی کروایا جائے۔

سلمان نامی ایک صارف نے لکھا کہ 'یہ اچھی بات ہے کہ وزیراعظم نے یہ بات کی لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سکیورٹی فراہم کی جانی چاہیے تاکہ جرائم کی شرح اور ریپ کیسز صفر فیصد ہوجائیں۔ ملک کی ہر گلی محلے اور دیہات میں کیمرے اور سکیورٹی گارڈز ہونے چاہییں۔'

 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان