ملزم عابد علی اپنے محلے میں بھی خواتین کو ہراساں کرتا تھا: اہل علاقہ

عابد علی کے اہلِ محلہ نے بتایا ہے کہ وہ اس سے سخت تنگ تھے کہ وہ ان کی خواتین کو بھی ہراساں کرتا رہتا تھا۔

لاہور موٹر وے پر خاتون سے ڈکیتی کے بعد زیادتی کیس میں ملوث مرکزی ملزم عابد علی کے محلے والوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے محلے کی خواتین کو بھی جنسی طور پر ہراساں کرتا رہتا تھا، اور ان کی اپنے محلے میں بھی شہرت جرائم پیشہ افراد جیسی ہے۔

ملزم عابد کی رہائش گاہ لاہور سے شیخوپورہ روڑ پر قلعہ ستار شاہ کے پسماندہ محلہ غازی کوٹ میں واقع ہے۔ جب انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم اس علاقے میں پہنچی تو محلہ داروں نے عابد علی سے شدید نفرت کا اظہار کیا۔

قدرے محفوظ سمجھے جانے والے لاہور موٹروے پر 8 ستمبر کی رات گئے ایک خاتون پر جو اپنے بچوں کے ساتھ سفر کر رہی تھیں پنجاب پولیس کے مطابق دو ملزمان نے ڈکیتی کے دوران جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔

اس واقعے پر جو ایک بڑی قومی خبر بن گئی حکومت پنجاب شدید دباؤ میں آئی تو چھ روز بعد وزیر اعلی عثمان بزدار نے ایک ملزم شفقت کے گرفتار ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ اس ملزم کا ڈی این اے میچ کر چکا ہے اور اس نے اعتراف جرم بھی کر لیا ہے۔ ملزم شفقت نے انسداد دہشت گردی عدالت کے سامنے بھی اعتراف کیا اور کہا کہ 'مجھ سے غلطی ہوگئی، معاف کر دیں۔'

وزیر اعلی نے اس واقعے میں مبینہ طور پر ملوث ایک دوسرے ملزم عابد علی کا بھی نام لیا تھا اور کہا کہ اس کی گرفتاری کے لیے بھی ہماری ساری ٹیم مسلسل کوشاں ہے۔ دوسرا مرکزی ملزم عابد علی تاحال گرفتار نہیں ہو سکا ہے تاہم پولیس حکام کے مطابق اس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

آئی جی پنجاب مرکزی ملزم عابد علی، جن کے  جائے وقوعہ پر ملنے والے نمونوں سے ڈی این اے کے نمونے میچ کرنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔

محلہ غازی کوٹ میں واقع دو تین مرلہ کے چھوٹے سے جس مکان میں عابد بیوی بچی کے ساتھ رہائش پذیر تھے اس کی ایک دیوار نہیں ہے اور محلے والوں کے مطابق وہ یہیں سے پولیس چھاپے کے وقت بیوی سمیت فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔

ان کی محلہ دار خاتون جمیلہ (فرضی نام) نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عابد علی مسلح ہو کر ادھر ادھر گھومتا تھا اور لوگوں کو دھمکیاں دیتا تھا۔ وہ آس پاس گھروں میں رہنے والی خواتین کو بھی جنسی ہراساں کرتا تھا لیکن خاموش اس لیے رہتے تھے کہ یہ جھگڑتا ہے اور دھمکیاں دیتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ اکثر رات کے وقت گھر سے غائب رہتے اور دن میں گھر پر ہوتے تھے۔ اس نے اڑھائی سال پہلے یہاں تین مرلے خرید کر مکان تعمیر کیا۔ ’اکثر محلے والے جانتے تھے کہ اس کے اندر سارا سامان چوری کا ہے کیوں کہ سب کو پتہ تھا کہ یہ رات کو سامان اور پیسے لوٹ کر لاتا ہے۔ ایک بار پہلے بھی پولیس اسے پکڑ کر لے گئی تھی لیکن اس کے بعد وہ ٹھیک ہونے کی بجائے مزید خوف ناک ہو گیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ہم ڈرتے تھے کہ وہ ہماری بچیوں کو نقصان نہ پہنچائے۔

انہوں نے کہا کہ موٹر وے واقعے کے بعد دو دن تک وہ گھر رہے اور چار پولیس اہلکار یہاں قریب آئے۔ ’میں نے دیکھا وہ قلفی کھاتے ہوئے فون سن رہا تھا۔ اس کے بعد جلدی سے واپس گھر گیا اور وہاں سے فرار ہو گیا جب پولیس کی گاڑی پہنچی تو وہ فرار ہو چکا تھا جبکہ اس کی بیوی برقع پہن کر پولیس اہلکاروں کے قریب سے گزر کر چلی گئی۔ تاہم ان کی بیٹی پولیس کی تحویل میں ہے۔

اسی محلے کی رہائشی فہمیدہ (فرضی نام) نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ عابد علی اور ان کی بیوی دونوں کا رویہ ناقابل برداشت تھا۔ ’عابد ہمیں بھی گھورتا رہتا تھا اور ہم ایک طرف سے گزر جاتے تھے تاکہ ان کے منہ نہ لگنا پڑے۔‘

انہوں نے کہا کہ عابد علی کے ساتھ محلہ میں کسی کا کوئی لین دین نہیں تھا۔ وہ ابتدا سے ہی مشکوک تھا اور سب سے الگ الگ رہتا تھا تاکہ ان کی اصلیت کسی کو پتہ نہ چل سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عارف الدین (فرضی نام) نامی محلہ دار نے الزام لگایا کہ وہ یہاں اسلحہ لے کر گھومتا تھا ہوئی فائرنگ کر کے خوف و ہراس پھیلاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب سے وہ غائب ہوا ہے، یہ دن محلے میں امن کے ہیں کیونکہ وہ کسی سے ادھار سامان لے کر بھی دوکانداروں کو پیسے نہیں بلکہ دھمکیاں دیتا تھا۔ ہم اس سے دور ہی رہتے تھے زیادہ تر تو وہ رات کے وقت یہاں سے غائب ہوتا تھا شام کے وقت لوگوں کو ہراساں کرتا تھا۔

بعض لوگوں کو شک ہے کہ پنجاب حکومت اور پولیس عوامی دباؤ میں کمی لانے کے خاطر جلدی میں اس مقدمے میں کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتی ہے تاہم اس بات کا فیصلہ عدالت ہی کرے گی کہ آیا عابد اور شفقت واقعی اس واقعے میں ملوث تھے یا نہیں۔

اخباری اطلاعات کے مطابق تاہم ملزم عابد علی ماضی میں بھی پولیس کے رڈار پر کئی مرتبہ آیا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر سزا سے بچتا رہا۔ انگریّی روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق 2013 میں بھی ملزم نے فورٹ عباس کی ایک گاؤں میں ڈکیتی کے دوران ایک مکان میں 14 سالہ لڑکی پر جنسی حملہ کیا تھا البتہ پولیس نے اس اخبار کے مطابق اس واقعے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ اس وقت بھی ملزم نے متاثرہ خاندان کو دھونس دھمکی دی جس کے بعد وہ وہاں سے محفوظ مقام پر منتقل ہوگئے تھے۔

حالیہ دنوں میں اسے 8 اگست کو شیخوپورہ میں چوری کی ایک واردات میں گرفتار کیا گیا لیکن وہ ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ ملزم کم از کم 10 مقدمات میں پنجاب پولیس کو مختلف علاقوں میں مطلوب ہے۔

شناختی کارڈ پر ملزم عابد کا پتہ بہاولنگر درج ہے جبکہ وہ اہل علاقہ کے مطابق اڑھائی سال سے یہاں مقیم ہیں۔

------------

نوٹ: اہلِ محلہ کے تحفظ کی خاطر ان کے اصل نام ظاہر نہیں کیے گئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان