پاکستان میں کورونا کی داستانِ شکست

پاکستان نے کیسے کرونا (کورونا) کے خلاف کم وسائل اور ڈگمگاتی معیشت کے باوجود لڑائی لڑی یہ ایک کیس سٹڈی ہے جس کی دنیا بھی معترف ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔

بہتر منصوبہ بندی نے کرونا کی کمر توڑنے میں اہم کردار ادا کیا (اے ایف پی)

چین میں پچھلے سال ایک وائرس پھیلا۔ پہلے تو چہ مگوئیاں ہوئیں کہ یہ وائرس امریکہ نے چین میں چھوڑا۔ پھر کہا گیا کہ چین کی اپنی لیبارٹری سے تجربوں کے دوران غلطی سے باہر نکل گیا۔ کس نے کس کو نقصان پہنچانے کے لیے یہ وائرس چھوڑا؟ اس سوال پر اتنی بحث ہوئی کہ تمام ممالک یہ منصوبہ بندی کرنا بھول گئے کہ اگر یہ چین سے باہر نکل آتا ہے تو وہ ممالک اس کو روکنے کے لیے کیا کریں گے۔

پاکستان بھی اس سب کو بڑے قریب سے دیکھتا رہا۔ بہرحال چین نے اپنے صوبے ووہان کو چند ماہ کے لیے مکمل بند کر دیا۔ نہ کوئی داخل ہو سکتا تھا نہ اس صوبے سے باہر جا سکتا تھا۔ چند ممالک نے اس سخت پابندی کے دوران اپنے شہریوں کو ووہان سے نکالنا شروع کیا۔ اس سے ہوا یہ کہ یہ وائرس کئی ممالک میں جا پہنچا۔

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

پاکستان کے جو طالب علم ووہان میں پڑھ رہے تھے ان کی اور ان کے والدین کی طرف سے بڑا زور ڈالا گیا حکومت پر کہ ان طلبہ کو وطن لایا جائے لیکن نہ تو اس کی اجازت چین کی حکومت سے مل رہی تھی اور نہ پاکستان یہ چاہتا تھا۔ پاکستان کے اس فیصلے کی بنیاد پیغمبر اسلام کی ایک حدیث بھی تھی جس میں تلقین کی گئی تھی کہ ’جب کسی جگہ کوئی وبا پھوٹ پڑے تو جو اس جگہ موجود ہیں وہ وہاں سے باہر تب تک نہ جائیں جب تک وبا ختم نہیں ہو جاتی۔‘

پاکستان نے کیسے کرونا (کورونا) کے خلاف کم وسائل اور ڈگمگاتی معیشت کے باوجود لڑائی لڑی یہ ایک کیس سٹڈی ہے جس کی دنیا بھی معترف ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔

پاکستان نے فروری 2020 کے پہلے ہفتے میں پاکستان کے سارے ہوائی اڈوں پر سکریننگ شروع کر دی۔ میں فروری کے پہلے ہفتے میں آزربائیجان گئی تو وہاں حالات بہت بہتر تھے اور شاید ہی کسی کو معلوم تھا کہ کورونا وائرس بھی کوئی چیز ہے۔ جب میں فروری کے دوسرے ہفتے میں واپس آئی تو اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر میری اور تمام مسافروں کی سکریننگ ہوئی۔

اتنے میں دوسری طرف بلوچستان میں ایران کے راستے زائرین کی ملک واپسی شروع ہوگئی جہاں سے کرونا کے بڑی تعداد میں کیسز سامنے آئے۔ ان میں سے کچھ لوگ اپنے اپنے شہروں اور علاقوں میں بھی چلے گئے تھے اور کچھ کو حکومت بلوچستان نے وہیں بارڈر کے پاس قرنطینہ کر دیا تھا۔ لیکن جو لوگ دیگر شہروں دیہاتوں میں نکل گئے تھے ان سے وائرس آگے منتقل ہوا۔

کہیں کہیں لوگ ڈنڈی بھی مار لیتے تھے۔ باہر سے آنے والے اپنے گھروں کو پہنچنا چاہتے تھے، وہ ٹیسٹ کرانے، ہوائی اڈوں پر بیٹھنے یا بخار اور کھانسی کی صورت میں قرنطینہ میں وقت گزارنے سے ڈرتے تھے لہذا ملک کے اندر سے بھی لوگوں میں وائرس منتقل ہوا اور بیرون ملک سے آنے والے بھی وائرس لائے البتہ ان کیسز کی تعداد کم تھی۔

پھر ایک ڈیڑھ ماہ میں پاکستان میں کرونا کے کیسز میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ معلوم ہونے لگا کہ ہسپتالوں میں جگہ کم پڑنے لگ گئی ہے، خاص طور پر کراچی اور پنجاب میں۔ ہمارے صحت کے نظام اور دیگر معاملات اور محکموں کی خامیاں عیاں ہونے لگیں لیکن حکومت نے ان سب پریشانیوں کا سامنا بڑے موثر انداز میں کیا۔

ہمارا ایک ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر NCOC بنا جس میں تمام صوبوں کے وزرا اعلی، چیف سیکٹری، سول اور عسکری قیادت روزانہ کی بنیاد پر بیٹھتی اور ریئل ٹائم ڈیٹا کی بنیاد پر فیصلے کرتی۔ جب دنیا میں اس وبا نے معاشی اور معاشرتی سطح پر تباہی مچائی ہوئی ہے اور کئی ممالک میں اس کی دوسری لہر بھی سامنے آرہی ہے تو پاکستان نے نا صرف اس کو قابو کیا بلکہ لاک ڈاؤن کے بعد انکریمینٹل یا سمارٹ لاک ڈاؤن اور پھر مائکرو لاک ڈاؤن کے ذریعے اسے روکا۔ اب پورے ملک کو آہستہ آہستہ کھولا بھی جا رہا ہے اور اب آخری مرحلے میں سکول کھولے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر ٹیڈروس، عالمی ادارے صحت کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ پاکستان اور چھ دوسرے ممالک سے سیکھنا چاہیے کہ انہوں نے کرونا پر کیسے قابو پایا۔ تو اس بیان کا مطلب یہ تھا کہ ان عوامل کو سمجھنا چاہیےکہ ان سات ممالک نے ایسا کیا کیا۔

پاکستان میں 15 جنوری سے منصوبہ بندی شروع کر دی گئی تھی۔ تاہم دیگر ممالک میں جس چیز کا فقدان رہا وہ تھی ہم آہنگی، خاص کر ان ممالک میں جن میں وفاقی طرز حکومت ہے وہاں پر یہ دیکھنے میں آیا کہ وفاق الگ ہے اکائیاں اور صوبے الگ چل رہے ہیں۔ پاکستان نے NCOC کے ذریعے یہ فقدان پیدا نہیں ہونے دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارت مثال کے طور پر بہت بڑا ملک ہے وہاں تمام صوبے اپنی اپنی مرضی سے چل رہے ہیں۔ Central coordination جیسی پاکستان میں تھی ویسی امیر ممالک میں بھی نظر نہیں آئی۔ چودہ مارچ کو سب سے پہلے نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس نے این سی سی یعنی نیشنل کورڈینیشن کمیٹی بنائی جس کی سربراہی وزیر اعظم عمران خان کرتے تھے۔ اس کے بعد این سی سی نے این سی او سی بنائی جس کو سول ملٹری قیادت نے مل کے چلایا۔ حالانکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ ہم آہنگی پیدا کرنا بڑا مشکل تھا کیونکہ کئی معاملات جیسے صحت، وغیرہ صوبائی معاملات ہیں۔

 حکومت کو ایک اور بڑی مشکل پیش آئی وہ بار بار کا یہ مطالبہ تھا کہ پورا ملک کو لاک ڈاؤن کر دینا چاہیے۔ شہری امیر طبقہ بہت زیادہ گھبرایا ہوا تھا۔ لیکن وزیر اعظم کی سوچ یہ تھی کہ ہم نے لوگوں کی زندگیوں اور زرائع آمدن کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہے۔ اسی سے سمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی بنائی گئی۔

ایک اور مشکل پاکستان میں ڈیٹا جمع کرنے کے نظام کی عدم دستیابی تھی۔ جب آپ کو پتہ ہی نہیں کہ مریضوں اور ٹیسٹ کی کتنی تعداد ہے، تو اس کو روکیں گے کیسے؟ ڈیٹا نہیں تھا، اداروں کے درمیان ہم آہنگی بھی نہیں تھی۔ اس کے لیے حکومت نے پاکستان کے پولیو پروگرام کا سہارا لیا جس کے ڈھائی لاکھ کے قریب ورکرز ہیں اور ان کے اپنے سسٹم بنے ہوئے ہیں جسے کہ Integrated Disease Surveillance System آئی ڈی آر سی اس کی بنیاد پر کرونا کی سرویلینس کو بنایا گیا۔ اس کے بعد ہر 24 گھنٹے میں حکومت کے پاس تازہ ڈیٹا آتا گیا کہ کتنے کیسز سامنے آئے، کہاں پر سامنے آئے وغیرہ۔

جب جون میں مریضوں کی تعداد بہت بڑھ گئی اور ہسپتالوں میں جگہ کم پڑنے لگی تو حکومت نے 800 ہسپتالوں سے ڈیٹا کے لیے ایک اور نظام بنایا جس کے بعد ریئل ٹائم میں حکومت کو یہ پتہ تھا کہ کس ہسپتال میں کتنے بیڈ خالی ہیں، کتنے لوگ آکسیجن اور کتنے وینٹیلیٹرز پر ہیں۔

یہ تھی کرونا کی پاکستان میں شکست کی داستان۔ اور اس داستان سے بہت سے ہیلتھ ورکرز کی، ڈاکٹرز کی، نرسوں کی اور دیگر لوگوں کی داستانیں اور قربانیاں جڑی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس لڑائی کو جیتنے کے لیے اپنی جانوں تک کی پرواہ نہ کی۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ