حالیہ لڑائی میں افغانستان کے اندر اہداف پر فضائی حملے کیے، پاکستانی وزیر دفاع کی تصدیق

وزیر دفاع خواجہ آصف نے پہلی مرتبہ تصدیق کی ہے کہ لڑائی کے دوران کابل اور افغانستان کے دیگر شہروں پر فضائی حملے کیے گئے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے پہلی مرتبہ تصدیق کی ہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والی لڑائی کے دوران پاکستان نے افغانستان کے اندر فضائی حملے کیے، جن میں کابل اور دیگر شہروں میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا۔

خواجہ آصف نے پیر کو عرب نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ [ٹی ٹی پی] وہاں موجود ہیں، کوئی بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ 

’اور ان کی قیادت وہاں موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب گذشتہ ہفتے کابل اور چند دوسرے شہروں میں حملے کیے تو ہم نے ان کا پیچھا کیا۔‘

دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان حالیہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب نو اکتوبر کو افغان دارالحکومت میں دھماکے ہوئے اور مشرقی افغانستان کے ایک بازار میں ایک فضائی حملہ کیا گیا۔

ٹی ٹی پی کے حملے میں 11 پاکستانی فوجیوں کی اموات کا جواب میں یہ دونوں کارروائیاں کی گئیں۔

افغان حکومت نے حملوں کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان میں عام شہری مارے گئے ہیں، تاہم اسلام آباد نے نہ تصدیق کی اور نہ تردید۔

11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی رات افغانستان نے پاکستان کی سرحدوں پوسٹوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے جن میں 23 پاکستانی فوجیوں کی موت ہوئی۔ پاکستان نے کو سرحد پار سے حملوں کا جواب دیا، جن میں افغانستان کے دو بڑے شہروں کابل اور قندھار میں فضائی حملے بھی شامل ہیں۔ 

کئی گھنٹوں بعد، دونوں ممالک نے کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ابتدائی 48 گھنٹے کی جنگ بندی ک، جس کی معیاد پوری ہونے پر افغانستان نے کہا کہ نئے پاکستانی فضائی حملوں میں تین افغان کرکٹرز سمیت 17 افراد مارے گئے۔ پاکستان نے شہریوں کے قتل کی تردید کی اور کہا کہ ان کارروائیوں میں عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ 

پوری لڑائی کے دوران پاکستانی فوج نے فضائی حملوں کی تصدیق نہیں کی بلکہ صرف کہا کہ اس نے اپنی سرحدی چوکیوں پر افغان فورسز اور عسکریت پسندوں کے حملوں کا جواب دیا۔

دوحہ میں بات چیت کے بعد اتوار کو ایک نئی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا جس پر اب بھی عمل درآمد جاری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب تک، اسلام آباد صرف ’انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں‘ یا سرحد کے قریب افغان فورسز اور عسکریت پسندوں جیسے ٹی ٹی پی کے ساتھ لڑائی کی تصدیق کرتا رہا ہے تاہم خواجہ آصف نے پہلی مرتبہ یہ اعتراف کیا کہ افغانستان کے اندر بھی عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ دوحہ میں ایک مفاہمت طے پا گئی ہے کہ ترکی اور قطر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضامن کے طور پر کام کریں گے کہ ٹی ٹی پی افغان سرزمین کو پاکستان میں حملوں کے لیے مزید استعمال نہ کرے۔ دونوں فریقین 25 اکتوبر کو استنبول میں دوبارہ ملاقات کریں گے۔

پاکستان کے وزیر دفاع نے کہا کہ ’طریقہ کار وہیں طے کیا جائے گا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کی نگرانی کیسے کی جائے۔‘

2021 میں  افغان طالبان کی افغانستان میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان عسکریت پسندی کی ایک نئی لہر سے نمٹ رہا ہے کیوں کہ ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ تنظیموں کے حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

اسلام آباد کابل سے مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ افغانستان میں موجود عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کرے اور انہیں پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے، تاہم افغانستان کی حکومت ایسی پناہ گاہوں کی موجودگی اور اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کی تردید کرتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان