ٹرمپ مودی اختلاف برقرار: امریکہ کی انڈیا کو ’بھاری محصولات‘ کی دھمکی

یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد سے انڈیا کا روسی توانائی پر بڑھتا انحصار انڈیا اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں ایک نازک موڑ بن چکا ہے۔

کلکتہ میں اگست 2025 کو سیاسی کارکن امریکہ اور انڈٰیا کے درمیان تجارتی معملات پر اختلاف پر مودی اور ٹرمپ کے پتلے نذر آتش کر رہے ہیں (اے ایف پی)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اصرار ہے کہ انڈیا نے روسی تیل خریدنا بند کرنے کا وعدہ کیا ہے تاہم انڈین حکومت نے اس دعوے سے لاعلمی ظاہر کی ہے۔

یہ واقعہ دونوں ممالک کے درمیان ایک غیر معمولی سفارتی ہفتے کا اختتام ہے جو بدھ کے روز اس وقت شروع ہوا جب امریکی صدر نے کہا کہ انہوں نے انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی سے بات کی ہے اور ’انہوں نے مجھے یقین دلایا ہے کہ وہ روس سے تیل نہیں خریدیں گے۔‘

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا: ’ایک بڑا قدم ہوتا کیونکہ یوکرین پر ولادی میر پوتن کے حملے کے بعد عالمی پابندیوں کے تناظر میں انڈیا روسی رعایتی تیل کا سب سے بڑا خریدار بن کر ابھرا ہے جس سے نئی دہلی کریملن کے جنگی اخراجات میں نمایاں حصہ ڈال رہا ہے۔‘

تاہم ایک دن بعد انڈین وزارت خارجہ نے بیان جاری کرتے ہوئے روسی تیل کی خریداری کا دفاع کیا اور کہا کہ یہ انڈیا کی معیشت اور عوام کے مفاد میں ہے۔ انڈیا نے مزید کہا کہ امریکہ کے ساتھ اس حوالے سے ’بات چیت جاری ہے۔‘

حیرت انگیز طور پر انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے بھی کہا کہ انہیں ایسی ’کسی گفتگو کی کوئی خبر نہیں‘ صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم مودی کے درمیان بدھ کے روز کوئی بات ہوئی ہو۔

صدر ٹرمپ نے اتوار کو دوبارہ اپنا مؤقف دہراتے ہوئے ایئر فورس ون پر صحافیوں کو بتایا: ’میں نے انڈیا کے وزیراعظم مودی سے بات کی اور انہوں نے کہا کہ وہ روسی تیل نہیں لیں گے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں معلوم ہے کہ انڈین حکام اس گفتگو کے ہونے سے انکار کر رہے ہیں، تو ٹرمپ نے کہا: ’اگر وہ ایسا کہنا چاہتے ہیں تو پھر وہ بھاری محصولات ادا کرتے رہیں گے اور وہ یہ نہیں چاہتے۔‘

یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد سے انڈیا کا روسی توانائی پر بڑھتا انحصار، ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت میں، انڈیا اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں ایک نازک موڑ بن چکا ہے۔

واشنگٹن نے نئی دہلی پر روس کے رعایتی تیل سے فائدہ اٹھانے پر تنقید کی ہے جس کے بارے میں صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ ’ یہ پوتن کی جنگ‘ کو مالی مدد فراہم کر رہا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے اس کے جواب میں انڈیا پر ’ثانوی پابندیاں‘ عائد کی ہیں جن کے تحت انڈین درآمدی اشیا پر 50 فیصد ٹیرف لگایا گیا ہے۔

ہفتے کو خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک انڈین عہدیدار کے حوالے سے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان ٹیرف پر بات چیت ’دوستانہ ماحول‘ میں جاری ہے لیکن انہوں نے بھی  ٹرمپ مودی کال کے اختلاف پر کوئی وضاحت نہیں دی۔

اس حوالے سے مزید ابہام اس وقت پیدا ہوا جب وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے کہا کہ انڈیا نے روسی تیل کی درآمدات آدھی کر دی ہیں جبکہ انڈین ذرائع کے مطابق اب تک اس میں کوئی کمی نظر نہیں آئی اور نومبر و دسمبر کی شپمنٹس پہلے ہی طے ہیں۔

انڈیا، جو تاریخی طور پر روس کے ساتھ تجارت، ثقافتی تبادلے اور دفاعی سازوسامان کی خرید میں قریبی تعلقات رکھتا آیا ہے، رواں سال کے آخر میں روسی صدر ولادی میر پوتن کا نئی دہلی میں استقبال کی تیاریاں کر رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس تنازع پر ’کے پلر‘ کمپنی کی سینئر آئل اینالسٹ مویو شو نے سی این این سے گفتگو میں کہا: ’میرا نہیں خیال کہ انڈیا راتوں رات روسی تیل خریدنا بند کر سکتا ہے کیوں کہ اس کا حجم بہت زیادہ ہے۔‘

’اتنے بڑے حجم کو فوری طور پر عالمی مارکیٹ سے بدلنا آسان نہیں۔ تیل کے معیار اور ریفائنری کی کارکردگی کے فرق کی وجہ سے اسے بدلنا آسان نہیں ہو سکتا۔‘

ان کے مطابق رواں سال کے پہلے نو مہینوں میں روس نے انڈیا کو یومیہ تقریباً 17 سے 18 لاکھ بیرل تیل فراہم کیا۔

رواں ماہ کے آغاز میں انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اعتراف کیا کہ تجارت سے متعلق اختلافات اب بھی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا ایک بڑا سبب ہیں مگر انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین انہیں ’جاری مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ابھی تک ہماری تجارتی بات چیت کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچی۔ یہ امور گفت و شنید اور مذاکرات کے متقاضی ہیں اور ہم بالکل یہی کر رہے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا