فیس بک: 'عادی' بنانے کے لیے تمباکو کمپنیوں جیسے حربے اپنائے

فیس بک کے سابق ڈائریکٹر مونیٹائزیشن کے مطابق کمپنی نے تمباکو کی صنعت 'بگ ٹوبیکو کی پلے بک کا ایک صفحہ' لے کر صارفین کو 'عادی' بنانے پر کام کیا۔

(پکسابے)

سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کے سابق ڈائریکٹر مونیٹائزیشن نے کہا ہے کہ کمپنی نے تمباکو کی صنعت 'بگ ٹوبیکو کی پلے بک کا ایک صفحہ' لے کر صارفین کو 'عادی' بنانے پر کام کیا۔

ٹم کینڈل نے کہا: 'مجھے ڈر ہے کہ ہم خود کو خانہ جنگی کے دھانے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔' ان کے یہ الفاظ امریکی کانگریس کی کنزیومر پروٹیکشن اینڈ کامرس سب کمیٹی میں تحریری شہادت کے طور پر سامنے آئے۔

ٹم نے کہا کہ ان کا ماننا تھا کہ فیس بک کے لیے کاروباری ماڈل کا تعین کرنا ان کی ملازمت کا تقاضہ تھا لیکن اس کی بجائے ملازمت کا تقاضہ یہ تھا کہ 'اتنی توجہ حاصل کی جائے جو انسانی بس میں ہو اور اس سے اتنا منافع کمایا جا سکے جس کی تاریخ میں مثال نہ ہو۔'

ٹم فیس بک کا موازنہ تمباکو کمپنیوں سے کرتے ہیں جنہوں نے سگریٹوں میں چینی اور منتھول شامل کی تاکہ صارفین زیادہ لمبے عرصے تک تمباکو نوشی کرسکیں۔ 'ہم نے فیس بک میں سٹیٹس اپ ڈیٹس، فوٹو ٹیگ کرنے اور لائیکس اپ ڈیٹس کا اضافہ کیا، جس نے غلط معلومات، سازشی نظریات اور جعلی خبروں کا احاطہ کیا۔'

انہوں نے یہ بھی کہا کہ فیس بک کے الگورتھمز نے صارفین کی 'نئے سرے سے ذہن سازی' کی تاکہ توسیع کے عمل کے ذریعے زیادہ سے زیادہ توجہ اور منافع حاصل کیا جا سکے۔ 'انتہاپسندی اور اشتعال انگیزی پر مبنی مواد — ہیجان خیز تصاویر، گرافک ویڈیوز اور ان شہ سرخیوں کے بارے میں سوچیں جنہوں نے تقسیم کے بیج بوئے۔'

مئی میں فیس بک کے عہدے داروں نے مبینہ طور پر وہ تحقیق ختم کرنے کا فیصلہ کیا جس کی بدولت سوشل میڈیا ویب سائٹ اس خوف کے پیش نظر کم تقسیم پیدا کرنی والی بن جاتی کہ وہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صارفین کو ناجائز طور پر ہدف بنائے گی۔

ٹم نے کہا: 'جہاں تک انتہا پسند خیالات پھیلانے اور پروپیگنڈے کا تعلق ہے ان سروسز کے پاس مواد کو معتدل بنانے کے طریقے موجود ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ طریقے کبھی کافی ثابت نہیں ہوسکتے حالانکہ ان کمپنیوں کے پاس خرچ کرنے کے لیے اربوں ڈالرز ہیں۔'

مواد کو مؤثر طریقے سے معتدل نہ بنانے پر فیس بک، اس کے ذیلی ادارے انسٹاگرام اور بہت سی دوسری سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پرتنقید کی گئی ہے۔ فیس بک کے الگورتھم کو ہولوکوسٹ (یہودیوں کی نسل کشی) سے انکار کو فروغ دیتے پایا گیا جب کہ انسٹاگرام کے الگورتھم کی نوجوان لڑکیوں کو خود کو نقصان پہنچانے والی تصاویر کے گڑھے کی طرف دھکیلنے پر مذمت کی گئی۔

ٹم نے امریکی قانون کی دفعہ 230 کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو کسی بھی 'باہمی رابطے کی کمپیوٹر سروس' کے مالکوں کو تھرڈ پارٹی کی طرف سے پوسٹ کی کسی چیز کی ذمہ داری سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔

یہ قانون ایسی کسی بھی ویب سائٹ یا سروس جو ایسے مواد جیسے کہ خبروں کے اداروں کے رائے کے حصے کو جگہ فراہم کرتی ہیں، ویڈیو سروس جیسے کہ یوٹیوب اور سوشل میڈیا سروس جیسے کہ فیس بک اور ٹوئٹر، کو صارفین کی جانب سے پوسٹ کیے گئے مواد پر مقدمات کے خلاف تحفظ دیتا ہے۔

ٹم نے لکھا: 'میں ان چند شعبوں کے بارے میں سوچتا ہوں جنہیں اتنا وسیع تحفظ حاصل ہے اور کوئی بھی ایسا نہیں جس نے بنیادی ضابطے کی اس عدم موجودگی کی بدولت اتنا زیادہ منافع حاصل نہ کیا ہو۔' صدر ٹرمپ نے اس قانون پر حملہ کیا کیونکہ ٹوئٹر نے ان کے ٹویٹس میں حقائق کی جانچ پڑتال شروع کر دی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹم کمپنی پر تنقید کرنے والے اس کے واحد سابق ملازم نہیں۔ ایک سابق ڈیٹا سائنس دان نے، جنہیں کمپنی نے برطرف کر دیا، دعویٰ کیا کہ فیس بک اس شہادت کو نظر انداز کر رہی ہے کہ اس کے پلیٹ فارم پر موجود جعلی اکاؤنٹس دنیا بھر میں سیاسی واقعات میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں۔

درمیانے درجے کی ملازم صوفی چانگ نے کہا کہ 'ان کے ہاتھوں پر خون لگا ہوا ہے۔' انہوں نے دعویٰ کیا انہیں ان قومی واقعات پر اختیار حاصل ہے جنہوں نے کئی انتخابات کو متاثر کیا۔ فیس بک کے ایک انجینیئر نے گذشتہ ہفتے استعفیٰ دے دیا تھا۔ انہوں کہا کہ سوشل میڈیا کا بڑا ادارہ 'امریکہ اور عالمی سطح پر نفرت سے منافع کما رہا ہے۔'

فیس بک کے ایک اور انجینیئر نے جون میں ملازمت چھوڑی۔ انہوں نے کمپنی پر الزام لگایا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹس سے متعلق پالیسی کے بارے میں جھوٹ بول رہی ہے۔ 'دی انڈپینڈنٹ' نے تبصرے کے لیے فیس بک سے رابطہ کیا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی